وہی تو ہے جو شفا دیتا ہے

عفاف نے صبح ناشتہ کرنے کے بعد بڑے دھیان سے دوائی لی۔ پھر اپنا کمرہ کی مکمل طور پر صفائی ستھرائی کا آغاز کردیا جس میں، اس نے کرونا وائرس کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد کوارنٹائن کیا ہوا تھا۔ اس نے میٹرس کور اتارا، بیڈ شیٹس، کشن کورز، چھوٹا قالین، تولیے، جائے نماز وغیرہ غرض کمرے کی ایک ایک چھوٹی بڑی چیز، سب تسلی سے واش روم میں جا کر سرف اور ڈیٹول میں علیحدہ علیحدہ بھگو دیے، پھر اس نے کچھ دیر بعد ان سب کو علیحدہ علیحدہ دھو بھی دیا۔ پھر واش روم کی ایک ایک بوتل، ٹیوب، نلکے، ٹینکی، فرش، دیواریں وغیرہ ہر چیز کو اچھی طرح اور تسلی سے دھویا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ کرونا مریض کے گرد و پیش کی صفائی ستھرائی کے ان سب کاموں کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھی۔
اس نے کمرے کے پردوں اور دیواروں پر سپرے کیا۔ پھر واش روم کی ہر چیز پر جراثیم کش سپرے کرکے، دھلے کپڑوں کی بالٹیاں اور ٹب اٹھا کر اس نے کمرے سے باہر رکھے اور کمرہ دو دن کے لیے احتیاطی تدبیر کے طور پر بند کر دیا۔

اس کے بعد عفاف چہرے پر ماسک لگا کر کمرے سے باہر آگئی۔ اب وہ اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے درمیان تھی۔ اس نے ابھی احتیاطاً تین چار دن مزید ماسک لگانا تھا۔ بچوں نے ماں کا پرجوش استقبال کیا۔ وہ بھی اپنے بچوں کو اپنے سامنے دیکھ کر، ان سے مل کر نہال نہال ہو گئی۔اور اپنے اندر زندگی کی نئی رمق محسوس کرنے لگی۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔
ایک جرثومے نے تاریخ بدل کے رکھ دی
اشک پتھر ہیں، کہیں دیدۂ تر زندہ ہے

اذان کے بعد اس نے اور بچوں نے ظہر کی نماز پڑھی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد اس نے اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ دعائیں مانگیں۔ اس کا دل بہت خوش بھی تھا اور اللہ تعالی کا شکر گزار بھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تہہ دل سے مشکور تھی جس کے فضل و کرم سے یہ مشکل ترین وقت آسان ہوگیا جب کورونا وائرس کی بیماری کے ٹیسٹ کے پوزیٹو ہونے کی وجہ سے وہ دونوں میاں بیوی گھر میں علیحدہ علیحدہ کمروں میں کوارنٹائن ہوگئےتھے۔ اس کے شوہر کے ایک دوست کی کرونا وائرس کی وجہ سے وفات ہوگئی تھی جس کے جنازے میں وہ شریک ہوئے تھے۔ وہیں میت کے تیمارداروں سے تعزیت کے مراحل میں کرونا وائرس کے جراثیم ان دونوں تک منتقل ہوگئے تھے۔ انہوں نے فوتگی کے موقع پر کافی احتیاط کی تھی بلکہ سب اہل میت نے بھی ماسک، دستانوں اور سینیٹائزر وغیرہ کا مستقل استعمال کیا تھا تاہم تقدیر غالب آگئی تھی اور وہ کچھ ہوگیا جو ان کے مقدر میں لکھا ہوا تھا۔ یعنی وہ کرونا کے مریض بن گئے تھے۔
بعد میں کئی جان پہچان والے محتاط قسم کے لوگوں نے ان کو باتیں بھی سنائی تھیں کہ آپ لوگ کیوں کرونا میت کے گھر تعزیت کے لیے گئے تھے؟ آپ لوگ فون پر تعزیت کرلیتے تو کافی تھا۔
وہ صبح وشام کے اذکار اور دعائیں پابندی سے پڑھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ مومن کے لیے “حصن المسلم” یعنی “حفاظتی قلعہ” ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ وہ دونوں ہی اس دن پریشانی میں صبح کے اذکار نہ پڑھ سکے تھے۔

ان اذکار کی پابندی کرنے والے اللہ کے حکم سے عموماً محفوظ و مامون رہتے ہیں۔ پھر جس کی بیماری یا موت کی تقدیر لکھی ہوتی ہے تو تب تقدیر غالب آ جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ دونوں یہ بھی سمجھتے تھے کہ انسانی ہمدردی اور ایثار کو اہل دین اور عزیز و اقارب ہی سلام کہ دیں گے تو پھر معاشرے کا اللہ حافظ۔۔۔ہی ہوگا۔ ان خوبصورت اسلامی اقدار وروایات کو زندہ رکھنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ پر بھی یقین کامل رکھتے تھے کہ
“لَا عَدْوَی، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَّةَ، وَلَا صَفَرَ”
(صحیح البخاری: 5707 ؛ صحیح مسلم: 2220)
ترجمہ: ’’نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ کوئی بدشگونی ہے، نہ الو کا بولنا ہے اور نہ ماہ صفر کی تبدیلی میں کوئی بدشگونی ہے۔”

وہ یقین رکھتے تھے کہ احتیاط ضرور کرنی چاہیے لیکن اس میں غلو سے بچنا چاہیے۔ باقی انسان کی تقدیر کے مطابق بیماری و صحت اور موت و حیات کے فیصلے ہوتے ہیں۔
دو چار دن کے بعد ان دونوں میں کرونا کی علامتیں بڑی واضح ہوتی گئیں۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے شوکت خانم لیبارٹری سے کرونا ٹیسٹ کروائے جن میں دونوں کا رزلٹ پوزیٹو آیا تھا۔
اس کے شوہر اب بھی آئسولیشن میں تھے۔ دو تین دن بعد ان کی آئسولیشن کی مدت بھی ختم ہو جانی تھی۔ وہ دونوں میاں بیوی نوجوان اور صحت مند تھے اور صحت یابی کی بھرپور امید رکھتے تھے۔ عفاف پر امید تھی کہ اس کے شوہر بھی اب اپنے اہل خانہ میں شامل ہوکر نارمل طریقے سے زندگی گزار سکیں گے۔ ان شاءاللہ۔

شام ہوئی تو نماز کی ادائیگی کے بعد وہ مسنون دعاؤں والی کتاب کھول کر شام کے اذکار پڑھنے لگی۔ کچھ دعائیں اسے زبانی یاد تھیں اور باقی دعائیں وہ کتاب میں سے دیکھ کر پڑھ لیتی تھی۔ موت و حیات کی کشمکش والی اس بیماری نے اس کی زندگی میں کافی تبدیلی پیدا کردی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے مزید قریب ہوگئی تھی۔

پھر وہ مسلسل آیت کریمہ اور دیگر دعائیں پڑھنے لگی۔ منہ سے جیسے خود بخود دعاؤں کے الفاظ نکل رہےتھے۔ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا جذبہ اس وقت ہر احساس پر بھاری تھا۔ بات بات پر زبان سے “الحمدللہ” کے الفاظ جاری ہو جاتے تھے۔ ساتھ ہی یہ احساس پوری طرح غالب تھا کہ اب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مکمل فرمانبرداری کر کے اسے ہمیشہ اور ہر صورت راضی رکھنا ہے۔
مان لو یہ بات سب کہ اب خدا ناراض ہے
یہ ’’کورونا وائرس‘‘ اس برہمی کا راز ہے

کوارنٹائن کے دوران، اس نے اور اس کے بچوں نے حتی الامکان احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں اور ان پر سختی سے عمل پیرا رہے تھے، جس کا انہیں بہت فائدہ ہوا تھا اور وہ صحت مند ہو گئی تھی۔ اسے اللہ تعالیٰ سے قوی امید تھی کہ اس کے شوہر بھی جلد ہی مکمل طور پر شفا یاب ہو کر ان کے ساتھ زندگی کے جھمیلے میں دوبارہ شامل ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ، گھر میں کرونا کے دو مریض ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کے بچے کرونا وائرس کی بیماری سے تاحال محفوظ تھے۔ الحمدللہ۔
وہ دل و جان سے دعاگو تھی کہ اللہ تعالیٰ سب کو اس بیماری سے محفوظ کرکے اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دنیا سے جلد ازجلد اس بیماری کو ختم کردے۔ آمین ثم آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں