وقت کی قدر کیجیے (حصہ دوم)

جامع ترمذی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: حدثنا عبدالله بن عبدالرحمن أخبرنا الاسود بن عامر حدثنا أبو بكر بن عياش عن الاعمش عن سعيد بن عبد الله بن جريج عن أبى برزة الأسلمة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تزول قدما عبد يوم القيامة حتى يسأل عن عمره فيما أفناه و عن علمه فين فعل و عن ماله من أين أكتسبه وفيم أنفقه وعن جسمه فيما أبلاه قال هذا حديث حسن صحيح (ترمذی:2417)

قیامت کا دن ہو گا، سامنے رب کی عدالت ہو گی، میں اور آپ سامنے ہوں گے، درمیان میں کوئی ٹرانسلیٹر بھی نہیں ہو گا۔ کوئی پردہ نہیں ہوگا۔ رب العزت ایک ایک بندے کو بلا کر سوال پوچھیں گے۔اللہ کے نبی نے فرمایا: جب تک پانچ سوالوں کا جواب نہیں دے لے گا۔اپنی جگہ سے ہلے گا بھی نہیں۔پہلا سوال اس کی عمر کے بارے میں ہوگا۔ یعنی اپنا وقت کہاں لگا کہ آیا، چوکوں ، چورستوں اور کلبوں اور آوارگی میں، عریانی میں ، بے حیائی میں،نافرمانی میں، معصیت میں، رب کی بغاوت میں شیطان کی اطاعت میں،اے میرے بندو میں تمھارا رب ہونے کے ناطے یہ سوال پوچھتا ہوں زندگی کہاں لگا کہ آئے ہو؟ پھر خصوصیت کے ساتھ زندگی کے قیمتی حصے جوانی کے بارے میں سوال ہو گا۔ جوانی کی صلاحیتیں کہاں لگا کہ آئے ہو؟ کتنا وقت ہم ضائع کرتے ہیں۔ جس طرح نعمت کی قدر تب پڑتی ہے جب چھن جاتی ہے۔آنکھ کی قدر تب پڑتی ہے جب تنکہ پڑ جاتا ہے پھر پتہ چلتا ہے اس کا پلکنا، جھپکنا کتنی بڑی نعمت ہے. صحت سلامت رہی ، نعمت کا کوئی احساس نہیں ۔اسی طرح چلتے پھرتے رہے کوئی قدر نہیں۔ اگر فریکچر ہو جائے، چل پھر نہ سکے اور ہسپتال میں بیٹھ کرمعذوری میں مہینہ بھر بیٹھنا پڑے پھر قدر ہوتی ہے۔ اسی طرح وقت کی قدر بھی تب ہوتی ہے جب موت کا وقت آ جاتا ہے جب ملک الموت آ جاتا ہے تو پھر کہتا ہے تھوڈی دیر اور دے دے۔تھوڑا سا وقت دے دے۔ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ (سورہ المنافقون: 10)

شریعت اسلامیہ کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ جو اس وقت شہر خموشاں کی رونق ہیں ان کی زندگی کی بھی سب سے بڑی یہ خواہش ہو گی کہ اے اللہ دو تین منٹ کی مہلت دے دے اور بدلے میں سارا مال، اولاد، بچے ،گھر، بیلنس لے لو اور دو سجدوں کی مہلت دے دے۔۔کاش آپ کے کان یہ سن سکیں۔
خصوصا میں نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ وقت کیسے ضائع کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں وقت کا احساس نہیں کہ وقت نعمت ہے دوسری وجہ یہ کہ کوئی مقصد نہیں، کوئی ٹارگٹ اور ویژن نہیں، نہ دنیا کے لحاظ سے کوئی منزل، نہ آخرت کے لحاظ سے کوئی منزل۔ تیسری بڑی وجہ ہمارے اسلاف نے یہ بتائی کہ یہ عادت بنا لینا کہ اگر سوئے ہیں تو سوئے ہی رہنا، آٹھ، دس گھنٹے سوتے ہی رہنا،چوتھی وجہ کھانے کی عادت ہر وقت کھانے کی عادت جانوروں کی طرح نتیجتاً وقت بھی برباد اور صحت بھی برباد ہوتی ہے۔ پانچویں وقت ضائع کرنے کی وجہ کثرت کلام ہے،بولتے رہنا یہ سو چے بغیر کہ مجھے اس کا حساب بھی دینا ہو گا۔ کثرت کلام، کثرت نوم، کثرت طعام یہ برائیوں کی جڑیں ہیں۔ آج کل کے دور وقت پاس کرنے کا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔فیس بک اور اس کے تبصرے، یو ٹیوب کے چینلز، واٹس ایپ کے گروپس ، انٹر نیٹ کی براؤزنگ، موبائل اور اس کے پیکجز، نوجوان گھنٹہ دو گھنٹے اس لیے برباد کر دیتے ہیں کہ پیکج لگا ہوا ہے۔ بتائیے!! کوئی زندگی اور وقت کا پیکج بھی ان کمپنیوں نے نکالا ہے کہ جو ضائع ہوا ہے وہ مل جائے گا؟؟ دو منٹ کی بات بیس منٹ میں چلتی ہے، پانچ منٹ کی بات گھنٹے میں نہ کوئی کام کی بات ، اور نہ ہی کوئی مقصد۔ یہ چیزیں وقت کا ضیاع ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت کو بچانا کیسے ہے؟ بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں لیکن دو چیزوں میں خصوصاً لگانا ہے۔ حصولِ علم میں، ہم ڈگریاں حاصل کرنے، اور معلومات اکھٹی کرنے میں وقت لگاتے ہیں۔” علم وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا باقی شیطان کے وساوس ہیں۔ باقی سب ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ تو ہو سکتے ہیں علم نہیں۔۔
امام بخاری کتاب العلم میں ایک باب لائے ہیں ” العلم قبل القول والعمل ” محدث وقت شیخ عبداللہ ناصر رحمانی فرماتے ہیں کہ” اگر امام بخاری پوری کتاب کی بجائے یہ ایک جملہ ہی لکھ دیتے تو ان کی نجات کے لیے یہی کافی تھا۔اس سے مراد دین کا علم ہے جو بات کرنے ، اٹھنے ، بیٹھنے ، کہنے اور خاموش رہنے کے متعلق بتاتا ہے۔زندگی کیسے گزارنی ہے، میاں بیوی کے حقوق کیا ہیں، اللہ اور اس کے رسول سے پوچھیں، علم میں وقت گزاریں۔ میں آپ کے ضمیر پر اس سوال کے ساتھ دستک دینا چاہتا ہوں کہ چالیس یا پچاس سال کی زندگی میں کبھی سورہ فاتحہ کا ترجمہ پڑھنے کا بھی سوچا ہے؟؟نماز کا ترجمہ، دعاؤں کا ترجمہ ، قرآن کا ترجمہ اور صحیح بخاری جو پیغمبر کے فرمودات کی بہترین کولیکشن ہے، کبھی پوری زندگی میں آپ نے اس کا ایک صفحہ ہی پڑھا ہو۔یا گھر میں لا کر رکھی ہو۔

اللہ کے رسول کی باتیں نہیں پڑھتے، ناول، سٹوریز بکس، اور لٹریچر پڑھ لیتے ہیں اور یہ کہہ کر خود کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں۔ جس کے پاس قرآن اور حدیث کے لیے وقت نہیں وہ نوجوان فیس بک کے لیے دو گھنٹے کیسے نکال لیتا ہے۔وہ واٹس اپ پہ کئی گھنٹے چیٹ بھی کر لیتا سیاسی موضوعات پر لچھے دار گفتگو بھی ہم گھنٹوں کر لیتے ہیں جیسے وزیراعظم کے سب سے بڑے مشیر ہم ہیں۔
سب سے پہلے جیسے اس نے ہم سے مشورہ کرنا ہے یہ کروں یا نہ کروں؟ جسے ہم تبدیل نہیں کر سکتے اس پہ گھنٹوں تبصرہ اور اپنا ضمیر اور نفس جس کو تبدیل کرنا ہماری زمہ داری ہے اس کو تبدیل نہیں کرتے۔علم کے لیے وقت لگائیں، قرآن کے لیے وقت لگائیں۔۔میں آج غور کر رہا تھا اور اپنے آپ پہ بھی افسوس ہو رہا تھا کہ ہم نے کتنا وقت ضائع کر لیا۔ پورے دن کی بات نہیں، چوبیس گھنٹے کی بھی بات نہیں کرتا ہم ایک منٹ میں بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ، نیکیاں کما سکتے ہیں۔ اگر ہم درمیانی سپیڈ کے ساتھ پڑھیں تو ایک منٹ میں بارہ مر تبہ سورہ اخلاص پڑھ سکتے ہیں۔

اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابیوں کو مسجد میں بلاؤ، میں نے ان کو دس پارے پڑھ کر سنانے ہیں، قرآن کا تیسرا حصہ پڑھ کر سنانا ہے۔ آپ نے سورہ اخلاص پڑھ کر سنادی اور فرمایا: یہ سورہ ثلث قرآن ہے.
ایک منٹ میں تیس مرتبہ مختصر درود پڑھا جا سکتا ہے۔ اور ایک منٹ میں آپ سبحان اللہ و بحمدہ چالیس مرتبہ پڑھ سکتے ہیں۔ کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان و ثقیلتان فی المیزان سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔اللہ کے پیارے نبی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کہا تھا الحمدللہ تملاء المیزان۔ ایک مرتبہ الحمدللہ کہنا ترازو کو بھر دیتا ہے۔آپ سفر میں جاتے ہوئے ویڈیوز، فلمیں، گانے میوزک اور برہنہ عورتیں ناچ رہی ہیں وہ پانچ گھنٹے کے سفر میں بھی دیکھ لیتے ہیں اور اللہ کے لیے پانچ منٹ کا بھی ٹائم نہیں۔ کیسی زندگی اور شعور ہے؟ وقت کی کیسی نا قدری ہے؟ وقت کو کس طرح سے تباہ کیا جا رہا ہے۔

وقت کی قدر کرنے والے ہمارے اسلاف میں کیسے لوگ تھے، جن کا شعور بیدار تھا۔ امام طبری رحمہ اللہ کی عظمت کا کیا کہنا اپنی پوری زندگی میں اتنی محنت کی۔ ان کی کتابوں کی صرف فہرست امام یاقوت الحموی نے جو ان کے حالات زندگی میں لکھی ہے چون صفحات پر مشتمل ہے۔ جب تفسیر لکھنے بیٹھے اپنے شاگردوں سے کہنے لگے دل چاہتا ہے تفسیر لکھوں، شاگردوں نے سوال کیا کتنے صفحات پر مشتمل ہو گی۔ کہنے لگے میرا دل چاہتا ہے تیس ہزار صفحات پر مشتمل تفسیر لکھوں۔شاگرد کہنے لگے اسے کون پڑھے گا پھر آپ نے تیس ہزار صفحات پر مشتمل تفسیر لکھی۔ وہ تفسیر تیس حصوں اور پندرہ جلدوں پر مشتمل ہے پھر کہنے لگے تاریخ لکھنے کا ارادہ ہے انھوں نے صفحات کی تعداد پوچھی، کہنے لگے تیس ہزار کے لگ بھگ تو ہو گئی۔ تاریخ الامم و الملوک کے نام سے تاریخ طبری لکھی۔ جو تقریباً پندرہ جلدوں میں ہے۔ اور امام طبری کی زندگی کے دنوں کا حساب لگایا گیا تو تین لاکھ اٹھاون ہزار کے صفحات وہ اپنی زندگی میں لکھ کر چلے گئے۔

امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے جو قلم استعمال کیے ان کے تراشے جمع کیے تو کہنے لگے جب مجھے نہلانے کے لیے پانی گرم کرو تو ان قلموں کے تراشوں سے کر کے غسل دینا۔ امام بقیع ابن مخلد پانچ ہزار کلو میٹر کا پیدل سفر طے کر کے بغداد پہنچے۔ اندلس سے سفر کر کے امام احمد کی خدمت میں حدیث پڑھنے کے لیےحاضر ہوئے۔ بغداد پہنچنے پر پتہ چلا امام احمد تو جیل میں ہیں۔
جیلوں میں جانا علمائے حق کا شیوہ رہا ہے۔ وہ جیل کی صعوبتوں میں تھے۔ بقیع بن مخلد کو کہتے ہیں آپ جیسے شاگرد کو پڑھانا تو چاہتا ہوں ، لیکن پابندیوں کی وجہ سے پڑھا نہیں سکوں گا۔ کہنے لگے امام صاحب میں بہت دور کا سفر طے کر کے حاضر ہوا ہوں کوئی تو حل نکالیں۔۔ کہنے لگے میرے پاس صرف فقیر ہی آ سکتا ہے تو امام بقیع کہنے لگے میں فقیروں کے بھیس میں آ کر صدا لگایا کروں گا اور آپ مجھے صرف رسول اللہ کی ایک حدیث پڑھا دیا کرنا۔۔

امام ابن قیس کا ذکر ملتا ہے انھیں کسی نے کہا آؤ گپ شپ کریں تو کہنے لگے، پہلے سورج سے کہو تھوڑی دیر رک جاؤ۔اگر سورج رک جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کا مطلب ہے میری زندگی گزر رہی ہے پھر میرے پاس وقت نہیں ہے۔ وقت کی قدر کیجیے ہم نے اللہ کے سامنے اس کا حساب دینا ہے۔وقت کو عبادت، رزق حلال اور مفید کاموں میں لگائیں اور ضائع کرنا چھوڑ دیں۔

وقت کی قدر کیجیے (حصہ دوم)” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں