وقت کی قدر کیجیے (حصہ اول)

والعصر ان الانسان لفی خسر۔۔۔۔۔۔ قارئین محترم !! ہماری غلط فہمیوں میں سے ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بڑا محدود سمجھتے ہیں اور ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پیسہ ،مکان ، رہائش، دولت، بینک بیلنس، بنگلہ گاڑی سونا ،چاندی کے ذخائر، جاب، اولاد،اسٹیٹس یہ سب نعمت ہیں۔یقینا یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں۔اللہ تعالٰی یہ نعمتیں ہم سب کو عطا فرمائے” ربنا أتنا فى الدنيا حسنة وفى الاخره حسنة و قنا عذاب النار. (البقرہ:201)

لیکن یہ بہت بڑی حماقت ہے اگر ہم صرف انھیں چیزوں کو نعمت سمجھیں۔تھوڑا آگے بڑھئے! آنکھیں اللہ کی نعمت ہیں اس کی بینائی بھی نعمت، کان اور اس کی شنوائی اللہ کی نعمت، ہاتھ اور اس کے پکڑنے کی صلاحیت بھی نعمت ہے۔ پاؤں اور ان کی آہٹیں، ان کا چلنا بھی نعمت، دماغ اور سوچ بھی اس کی نعمت ہے۔ دل اور اس کی دھڑکنیں رب کریم کی نعمت، والدین اور اولاد رب کی نعمت،عزت بھی نعمت، بچھی ہوئی زمین اور آسمان کی تنی ہوئی چھت رب کی نعمت، دن رات کا بدلنا اللہ کی نعمت.
“و ان تعدوا نعمة الله ولا تحصوها”. اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کو شمار نہیں کر سکتے (النحل:18)

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ان نعمتوں کو غلط استعمال کرتا ہے اور رب کی ناشکری بھی کرتا ہے۔ایک بہت بڑی نعمت جس کو لوگ نعمت سمجھتے نہیں اس لیے اکثر لوگ اس کی قدر بھی نہیں کرتے۔ صحیح بخاری میں نبی محترم ارشاد فرماتے ہیں” عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللہ ﷺ : نعمتانِ مغبون فیھما کثیر من الناسِ ،الصحۃ و الفراغ ‘‘ (صحیح بخاری ،کتاب الرقاق ،باب ماجاء فی الرقاق ۔۔)
’’حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن سے اکثر لوگ غفلت میں رہتے ہیں :صحت اور فرصت‘‘

بالخصوص بڑی نعمت کون سی ہے تو علماء نے اس کی مختلف صورتیں بیان کیں کسی نے ایمان باللہ کو بڑی نعمت قرار دیا کہ ایمان ہو گا تو وقت کا فائدہ ہو گا اور کسی نے وقت کو قرار دیا، اور کسی نے صحت کو قرار دیا۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم دیکھتے ہیں کہ جب علماء نے غورو خوض کیا تو بعض نے یہاں تک کہا کہ وقت بعض اوقات ایمان سے بھی بڑی نعمت اس لیے بن جاتا ہے کہ وقت یا مہلت ہو گی تو اسے ایمان کا موقع ملے گا۔ ہمارے اسلاف نے تین بڑی نعمتوں کا ذکر کیا ہے، ہمارے لیے تو ایمان بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے لیکن آج میں وقت کی نعمت کے حوالے سے چند باتیں شئیر کروں گا۔

وقت اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر آپ سے کوئی دس ہزار یا لاکھ مانگے تو آپ سوچیں گے کہ یہ دیا جائے یا نا؟ اور کوئی قیمتی یا گولڈ کی چیز مانگے تو آپ اور زیادہ سوچ میں پڑ جائیں گے اور اگر کوئی آپ سے کہے کہ ساری دنیا کے عوض اپنا ہاتھ کاٹ کہ دے دو آپ بہت مخالف ہو جاؤ گے اور اگر کوئی آنکھیں مانگے تو آپ کہو گے ہوش کہ ناخن لو یہ نعمتیں دینے والی ہیں کیا۔۔ یہی انسان وقت ضائع کرنے پہ آئے تو بغیر سوچے منٹ اور گھنٹہ ہی نہیں ، کئی دن اور مہینے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی تو پوری زندگی ضائع و برباد کر بیٹھتا ہے کیونکہ وہ وقت کو نعمت سمجھتا ہی نہیں۔

امام حسن رح فرمایا کرتے تھے کہ اے آدم کے بیٹے تیرا وجود دنوں اور راتوں کے مجموعے کا نام ہے۔جب ایک دن گزرتا ہے تو دن نہیں بلکہ تو خود گزرتا ہے اسی طرح رات نہیں بلکہ تو خود گزرتا ہےبالکل اسی طرح سورج طلوع ہو کر جب لمبے لمبے فاصلے طے کر کے غروب ہوتا ہے تو وہ غروب نہیں ہوتا بلکہ تیری زندگی ڈوبتی ہے۔ اسی طرح رات نہیں کرتی بلکہ تیری زندگی کٹتی ہے۔ ہم دن و رات کو گزرتے دیکھتے ہیں اور ایک دن خود گزر جاتے ہیں۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ دن رات کے گزرنے میں تو جوانی گزری، پوری زندگی گزری۔

ہم اپنے وقت کا بہت سارا حصہ تو بچپن میں گزار دیتے ہیں۔ چودہ سال تک ہمیں ہوش نہیں آتی پھر تھوڑا آگے جا کر زیب و زینت میں مگن، پھر، شادی اور کمانے کا بوجھ پھر بچوں کی زمہ داریاں اور آگے چل ہم ارذل العمر یعنی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، نکمی زندگی جب کچھ کر نہیں سکتا۔والد محترم فرمایا کرتے تھے ابتدائی عمر میں سجدہ کرتے تھے لذت نہیں تھی اب سجدے میں لذت آتی ہے تو سجدہ نہیں ہوتا۔ ایسے گزرتی ہے زندگی۔وقت بڑی عجیب چیز ہے اگر خوشیاں ملیں تو جلدی گزر جاتا ہے لگتا ہے رکا ہی نہیں اور اگر پریشانیاں آئیں، کوئی دکھ، تکلیف یا بیماری آئے تو یوں لگتا ہے جیسے گزرا ہی نہیں۔ جب گزرنے پہ آئے تو گھنٹے منٹوں میں، سال مہینوں میں مہینے ہفتوں میں گزرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی یہ طول پکڑ لے تو پھر جنت میں ابد الاباد تک بھی ٹھہر سکتا ہے۔

اسی لیے آپ نے فرمایا کہ دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں رہتے ہیں” اگر آپ ایک روپے کی چیز دس ہزار میں لیں تو نقصان، اور پچاس ہزار کی چیز لاکھ میں لیں تو بھی نقصان اور لوگ اس کو بیوقوف کہیں گے۔ ہمارے اسلاف کہا کرتے تھے ان سب سے بھی بیوقوف وہ ہے جو سونے کی ڈلیوں کے بدلے مٹی کا تھیلا لے لے یا کسی قیمتی چیز کے بدلے کوڑے کرکٹ کا شاپر لے لے لیکن اس سے بھی بڑا بیوقوف شخص وہ ہے جو اپنا قیمتی وقت گندی چیزوں اور شیطان کے ایجنڈے کے حصول میں لگا دیتا ہے۔ پیسے کے نقصان کا ازالہ تو محنت کے ذریعے ہو سکتا ہے اور جو قیمتی دن اور وقت ضائع کر دیا وہ پوری زندگی مل کر ایک گھنٹہ تو کیا ایک منٹ بھی نہیں لوٹا سکتی۔
کائنات کی سب سے بڑی ہستی اور معلم نے صحیح مسلم میں فرمایا ہے کہ ” كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو، فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا”. [الرقم:223] عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ-رضي الله عنه-. ( جب انسان صبح کرتا ہے تو اپنے آپ کو بیچتا ہے) یعنی اس کا دن، زندگی، وقت ، صلاحیت برائے فروخت ہے۔ یعنی اس دن میں آپ جنت یا جہنم کے عوض خود کو بیچتے ہیں۔

امام رازی رح فرمایا کرتے تھے: اگر کسی نے سمجھنا ہو سورہ العصر کو تو و العصر۔ ان الانسان لفی خسر۔ الا الذين أ منوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا باالصبر. کس قدر مشابہت ہوتی ہے قرآن وحدیث کی بات میں جناب پیغمبر نے بھی وہی فرمایا جو رب نے قرآن میں کہا: مجھے زمانے کی قسم۔ انسان یقینا نقصان میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے جنہوں نے نیک عمل کیے اور وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی وصیت کرتے رہے۔

میں نے اور آپ نے کتنا نقصان کر لیا ہے سوچیے گا ضرور۔۔اگر میں فو ر ٹیز اور آپ ففٹیز میں جا رہے ہیں یا تھرٹیز اور ٹین ایجز میں جا رہے ہیں،یا کسی بھی اسٹیج پر ہیں تو پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ جو دن، ماہ و سال ہم نے ضائع کر لیے ہیں وہ قیامت تک واپس نہیں لوٹا سکتے۔ یاد رکھیے!! وقت صرف نعمت ہی نہیں بلکہ اللہ نے اس نعمت کے بارے میں سوال بھی کرنا ہے۔
جاری ہے..
حصہ دوم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

وقت کی قدر کیجیے (حصہ اول)” ایک تبصرہ

  1. وقت ایک قیمتی متاع ہے جس کی اہمیت کو بہترین انداز میں واضح کیا گیا ہے اس مضمون میں الحمدللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں