ہماری حدیث کی کتاب اللالی المضئیہ جو کہ صحاحِ ستہ کی کامن /مشترک حدیثوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب الایمان کا چیپٹر چل رہا ہے۔
” باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه ”
انسان کے اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی حرمت کے بیان میں ہے۔ قرآن حکیم میں بھی ارشاد ہے:-
لا تلقوا أيديكم بالتهلكة..
انسان کا اپنے آپ کو ہلاک کرنا یعنی خود کشی کرنا۔ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جو کہ گناہ کبیرہ ہے۔ اور یہ رب تعالیٰ کی نا شکری کی انتہا ہے۔ اور اس انتہا کا تک لے جانے والا شیطان ہے۔جب کہ انسان کسی معاملے میں مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی انسان خود کشی اس وجہ سے نہیں کرتا کہ وہ اپنی زندگی سے بہت خوش ہوتا ہے۔اور وہ اپنی زندگی سے بڑی راحت محسوس کر رہا ہوتا ہے۔اس کی بنیادی بڑی وجہ مایوسی ہے۔جو انسان کو اپنے خالق سے ہوتی ہے۔ اللہ رب العالمین سے ہوتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ اللہ سے دوری ہے۔ انسان جتنا اللہ سے دور ہوتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ پر ایمان جتنا کمزور ہو جاتا ہے۔ اتنی ہی مایوسی بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء بڑے بڑے حالات جن سے بچ نکلنا نا ممکن ہوتا ہے۔ ان میں بھی انبیاء اللہ سے نا امید نہیں ہوتے۔ حضرت یونس علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے:-
لا اله الا انت سبحانك اني كنت من الظالمين.
یہ دعا وہ پڑھتے رہے جب کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ جہاں دنیا کی کوئی طاقت نہیں پہنچ سکتی۔ تو یہ ناامیدی اور مایوسی نہیں تھی:-
و أيوب إذ نادى ربه أنى مسني الضر وانت ارحم الراحمين.
آٹھ سال تک ہلنے جلنے کی سکت نہیں ہے۔پورے جسم میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی اولاد نہیں ہے ساتھ میں صرف ایک بیوی ہے۔ ایسے حالات میں بھی انبیاء اللہ تعالیٰ سے امید کا تعلق ختم نہیں کرتے۔ جتنا ایمان اللہ پر بڑھتا ہے اس کا ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر انسان کی اس کیفیت سے شیطان فائدہ اٹھاتا ہے کیونکہ وہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ انسان زمین پر باقی رہے۔ وہ آپس میں لڑا کر بھی ختم کرتا ہے۔ خود انسان کی انسان کے ہاتھوں ہی جان لے کر ختم کرواتا ہے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے غیر مسلموں میں خود کشی کا گراف بڑی بڑی شخصیات اور بڑے دولت مند لوگ ہوتے ہیں آسائش اور آرائش میں پڑے ہوئے لوگ اچانک وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز ان کے پاس موجود ہے لیکن کچھ معا ملات میں نا امیدی ان پر طاری ہوتی ہے۔ جب اللہ پر ایمان نہیں ہوتا تو نا امیدی اور مایوسی کی ایسی کیفیات کا حملہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی جان خود لے لیتا ہے۔ تو اللہ رب العالمین سے انسان کا تعلق جس قدر مضبوط ہو گا۔ اتنی ہی اس کو اپنی جان کی اہمیت کا احساس ہو گا۔ اتنا ہی وہ خود کشی جیسے کبیرہ گناہ سے اپنے آپ کو دور رکھے گا۔ تو ایمان سے اس کا کیا تعلق ہے؟ کہ کتاب الایمان میں اس کا چیپٹر ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ انسان کا ایمان جس قدر مضبوط ہوگا۔ اتنا ہی وہ خود کشی جیسے جرم سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ اور چونکہ خود کشی جو ہے وہ مایوسی کی انتہا ہے۔تو اس کی انتہا پر گناہ اس کے اور دیگر جرائم اسے لے آتے ہیں تو ان گناہوں کی وجہ سے اس کا ایمان کم ہو جاتا ہے۔ اور جیسا کہ لاسٹ کلاس میں ہم نے پڑھا تھا کہ ایمان گھٹتا بھی ہے بڑھتا بھی ہے۔
ایمان کب کم ہوتا ہے جب انسان کے گناہ بڑھتے ہیں۔ اللہ سے نا امیدی اور مایوسی بڑھتی ہے ،شکوے، شکایات انسان کے ذہن میں، انسان کے دل پرجگہ بنا لیتے ہیں اور بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی جان خود اپنے ہاتھوں سے لے لیتا ہے۔ تو یہی اس کا ایمان سے تعلق ہے۔اس کبیرہ گناہ کی بھیانک نتائج کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سزا کو بیان فرمایا:-
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صلى الله عليه وسلم: «مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ فَحَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدا فِيهَا أَبَدا. وَمَنْ شَرِبَ سَمّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدا مُخَلَّدا فِيهَا أَبَدا. وَمَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَرَدَّى فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدا مُخَلَّدا فِيهَا أَبَدا».
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر پی لیااور اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔‘‘
بخاري، الصحيح،کتاب الطب، باب شرب السم والدواء به وبما يخاف منه والخبيث، 5: 2179، رقم: 5442
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1: 103، رقم: 109
ترمذي، السنن،کتاب الطب، باب ما جاء فيمن قتل نفسه بسم أو غيره، 4: 386، رقم: 2044
أبو داود، السنن،کتاب الطب، باب الأدوية المکروهة، 4: 7، رقم: 3872۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں اس جرم کی جوبھیانک سزا ہے اس کو بیان فرمایا۔اس میں ایک بات جو واضح ہے جو شخص اپنے آپ کو قتل کر کے کسی بھی طریقہ سے تو جہنم میں اس کو اسی طریقے سے عذاب دیا جائے گا۔ کوئی شخص بلڈنگ سے چھلانگ لگا دے اور کسی گاڑی کے نیچے آ جائے۔ٹرین کے آگے خود کشی کر لیتا ہے۔ یا بندوق کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے اپنی جان لے لیتا ہے تو پھر یہی طریقہ اس کے ساتھ آزمایا جائے گا جہنم کے اندر بھی جو جرم ہے اس کی سخت ترین سزا ملے گی۔اس کے علاوہ اس کو جو سزا ہے وہ الگ ہے لیکن اس کے ساتھ یہ جو رویہ ہے وہ اس کے ساتھ اختیار کیا جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ یہاں پر ایک اشکال آتا ہے اس حدیث کے اندر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رکھے گا۔لیکن اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی ایمان کی حالت میں مرا، اس کے دل میں ایمان اور توحید تھی۔ چاہے کس قدر کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے اللہ کے ساتھ کفر نہیں کیا اور شرک نہیں کیا۔ تو بالآخر اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔ وہ کتنا بڑا جرم کر کے چلا جائے حتی کہ خود کشی کرکے ہی چلا جائے۔ اگر اللہ چاہے گا تو اس کو سزا ایک طویل عرصے تک ملتی رہے گی۔ خالدا مخلدا کا معنی علماء نے طویل عرصے تک کیا۔ کیونکہ آیات میں یہ صراحت موجود ہے کہ رب العالمین شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کر دےگا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجود ہے کہ:-
من مات و لم یشرک باللہ، دخل الجنہ
کہ جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے اللہ رب العالمین کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
پھر دیگر صحیح احادیث بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے ذریعے سے اور اللہ رب العالمین کی شفاعت کے ذریعے سے اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ جن کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر یا ایک ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا ان کو بھی جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ جہنم میں عذاب حاصل کرنے کے بعد اور یہ بھی گناہ کبیرہ ہے کفر نہیں۔ اور اگر شرک کیا ہے تو پھر جہنمی ہے۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تو یہ خود کشی کی سزا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی۔ آج کل ہمارے خود کشی کے تعلق سے جو صورت حال ہے ایسا انسان کہ ذہن پر پریشر دیا جاتا ہے گھر والوں کی طرف سے، سننے میں آتا ہے کہ کسی سٹوڈنٹ نے خود کشی کر لی۔ بسا اوقات کوئی شخص بیروز گاری سے تنگ آ کر خود کشی کر لیتا ہے۔ معاشی حالات سے تنگ آ کر اور بعض اوقات انسان اپنے گھریلو حالات اور جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آ کر خود کشی کر لیتا ہے۔ تو یہ گھریلو جھگڑے ہوں، معاشی حالات ہوں، کاروباری تنگیاں ہوں۔ تعلیمی معاملات میں کوئی پریشانیاں ہوں، یہ سارے معاملات اللہ تعالٰی کی طرف سے آزمائش ہیں۔ اور ان آزمائشوں میں ہی تو انسان نے صبر کرنا ہے۔ اللہ ربّ العالمین نے انسان کو حکم دیا ہے۔اور ان آزمائشوں سے ہی تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا بڑا صابر ہے۔ اور حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے:-
تلك الأيام نداولها بين الناس
یہ جو دن ہیں ہم ان کو لوگوں کے درمیان گھماتے رہتے ہیں، یہ آتے ہیں ، جاتے ہیں۔
انما العسر يسرا یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تنگی کے بعد آسانی ہے۔ تو آسانی آنی ہے۔ یہ جو انسان جلد بازی کرتا ہے اور تنگ آ کر خود کشی کر لیتا ہے۔ جب کہ ہم انبیاء کی سیرت میں بڑے بڑے حالات پڑھتے ہیں کہ مایوسی اپنے آپ پر طاری نہیں کرنی چاہیے، ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا گو رہنا چاہیے۔
موجودہ حالات کی عکاس تحریر