دوسرا رزلٹ یہ نکلتا ہے کہ اس کا دل نماز، روزہ، قیام تہجد،تفسیر، حدیث ,خیر خواہی اور ہمدردی کے کاموں میں بالکل نہیں لگتا۔
چاہے رمضان کا مہینہ ہو ،وہ بیت اللہ میں بیٹھا ہو۔ خانہ کعبہ سامنے ہو اور وہ امام السدیس کی اقتداء میں نمازیں پڑھے، ان کی زباں سے قرآن کے تیس پارے بھی سن لے، لیکن اگر دل مریض ہو چکا ہے تو اس کی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں نکلے گا۔ یہ مریض دل اچھی اور خیر کی بات سنتے ہوئے بے چین رہے گا کہ میں کہاں پھنس گیا۔کب ان باتوں سے جان چھوٹے کیونکہ وہ تلاوت وعبادت کی شیرینی و حلاوت سے نا واقف ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لذتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔شیطانی لذتیں، رحمانی لذتیں،کفر کی لذتیں،ایمان کی لذتیں، نفس کی لذتیں،روح کی لذتیں۔ جو شیطانی لذتوں کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر وہ ایمان کی لذتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔نماز پڑھتا ہے لذت کے بغیر، تلاوت ہو گی تدبر کے بغیر، قرآن پڑھے گا دل میں اترے بغیر، حج اور عمرے ہوں گے اثر کے بغیر، نیکیاں ہوں گی حلاوت اور مٹھاس کے بغیر۔ پھر اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے ایک صحت مند بندے کو ذائقہ اچھا لگتا ہے۔لیکن یہی شخص جب بیمار ہو جاتا ہے تو اچھے بھلےانار، سیب اور انگور کا ذائقہ اس کو اچھا نہیں لگتا۔ سیب لذیذ ہوتا ہے لیکن اس کو کڑوا لگتا ہے۔انار اور انگور کا بھی اپنا ذائقہ تو اچھا ہی ہو گا۔ لیکن چونکہ اندر سے زبان کا ذائقہ خراب ہے۔ بخار اور کڑواہٹ کی وجہ سے اسے اچھی چیزوں کا ذائقہ نہیں ملتا۔یہی حال ہوتا ہے اس انسان کا جس کا دل اندر سے بیمار ہو جائے۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُۥ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى ٱلسَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ. (سورہ ق:37)
یہ قرآن نصیحت ہے لیکن اس کے لیے جس کے پاس ایمان والا دل ہو، نیکیوں کو انجوائے کرنے والا دل اور جس کے پاس یہ دل نہیں ہو گا، دل مردہ ہوا، آنکھیں مردہ ہوئیں، ہاتھ اور کان مردہ ہوئے۔ پورا انسان چلتی پھرتی لاش ہو گا۔ آنکھیں ہوں گی لیکن وہ دیکھے گا نہیں جو قرآن دکھانا چاہتا ہے۔کان ہوں گے، لیکن وہ یہ نہیں سنے گا جو قرآن سنانا چاہے گا۔ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ جہنم کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف: 179) یہ ایسے لوگ ہیں جن کے دل ہیں، سمجھتے نہیں، آنکھیں ہیں، دیکھتے نہیں، کان ہیں سنتے نہیں، یہ جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔
یہی آج ہمارا حال ہو چکا ہے۔لاشے اٹھا کر بھی ہمیں آخرت کی یاد نہیں آتی، جنازے پڑھ کر بھی موت یاد نہیں آتی، قبرستان میں جا کر بھی آخرت کی فکر پیدا نہیں ہوتی۔کیونکہ دل سخت اور بیمار ہو جاتا ہے۔پھر ایسی اسٹیج آتی ہے کہ اندر سے مر ہی جاتا ہے۔
آخر میں دو علاج بھی ذکر کروں گا۔یہ سوچ، یہ فکر کہ موبائل کی تنہائیوں میں خوف کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔ پہلا علاج سورہ ملک کی یہ آیت مبارکہ ہے۔ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (13) أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (14).
یاد رکھیے!! تم آہستہ باتیں کرو یا بلند آواز میں، سرا یا جھرا کرو، سرگوشیوں یا ڈنکے کی چوٹ پہ کرو۔ موبائل کو کوڈ لگا کہ یا ڈی کوڈ کر کے، فیک اکاؤنٹس پہ کرو یا حقیقی اکاؤنٹس پہ کرو۔ اس سر زمین پہ کرو یا بیرون ملک، گھر میں کرو یا سکولز، کالجز میں، بس اتنا یاد رکھو!! وہ اللہ جو تمہارا خالق و مالک ہے وہ تمھیں دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے۔ بلکہ وہ یہ بھی جانتا ہے جو سینوں میں چھپا ہے۔وہ موبائل کی کالز، میسجز اور پوسٹنگ کی نیتوں کو اور دل کے ارادوں کو خوب جانتا ہے۔ اس کا نام خبیر ہے وہ لمحے لمحے سے باخبر ہے۔ اس کا نام لطیف ہے وہ اس کی گہرائیوں سے بھی واقف اور یہ خبر کہاں پہنچے گی اس سے بھی آگاہ۔ وہ بصیر جو براہ راست دیکھتا بھی ہے۔ شھید ہر چیز پہ گواہ رب العزت نے اپنی صفات گنوائی ہیں کہ وہ ہر بات سے آگاہ ہے۔
دوسرا علاج جب بھی کوئی انٹرنیٹ کی دنیا میں بیٹھے ہوئے کوئی غلط منظر بھی دیکھتا ہے، اس کے اندر ایمان کی ہلکی سی چنگاری یا تھوڑا سا احساس باقی ہے۔وہ پوری طرح مردہ نہیں ہوا تو وہ ضرور چھپتا ہے۔ قفل بندی کا انتظام اور دروازے بند کرتا ہے۔وہ پاسورڈ یا سیکیورٹی یا پیٹرن کا اہتمام کرتا ہے اور کسی کے دیکھنے پر ہسٹری ڈیلیٹ کیسے کرنی ہے اس حوالے سے بھی سوچتا ہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے تھوڑا سا یہ بھی سوچ لیا کریں تم چھپ جاؤ جتا چھپنا چاہتے ہو، دروازوں کو مقفل کر لو لیکن یاد رکھو!! اس عرش والے سے کیسے چھپو گے۔ اور دوسرا یہ کہ اپنے ہاتھ، پاؤں اور باڈی سے کیسے بچو گے۔ اوپر سے رب دیکھ رہا ہے اور پھر ان اعضاء سے پوچھے گا کہ بتاؤ میرا بندہ تمھیں کیسے اور کہاں استعمال کرتا تھا؟؟
ﺣﺗﯽ اذا ﻣﺎ ﺟﺎءوھﺎ ﺷﮭد ﻋﻟﯾﮭم ﺳﻣﻌﮭم واﺑﺻﺎرھم وﺟﻟودھم ﺑﻣﺎ ﮐﺎﻧوا ﯾﻌﻣﻟون. ( سورہ فصلت:20)
اور الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (65) (سورہ یسین: 65 )
آنکھیں بولیں گی کہ اس نے دیکھتے ہوئے حرام ، حلال کی تمیز نہیں کی، ساری گندگی دیکھی۔ کانوں سے کہے گا تم بولو کیا سنتا تھا؟؟کان گواہی دیں گے اسی طرح ہاتھوں سے سوال ہو گا۔ وہ گواہی دیں گے یا اللہ!! یہ ایسے کرتا تھا۔ تو ایسے میں نجات کا ایک ہی راستہ ہے ہم پاک کریں اپنے موبائلز کو، اکاؤنٹس کو، میموری کارڈز کو، لیپ ٹاپز، پی سی ٹویٹس اور پوسٹس کو۔آج کل آئی۔ ٹی کے دور میں ہم خود کو بچا نہیں سکتے جب تک سب کچھ اتنا پاکیزہ نہ کر لیں کہ وہ رب سارا ڈیٹا اوپن کرے تو ہمیں اس کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کرنے کے حوالے سے بہت اہم اور خوبصورت تحریر جو ہمیں رب العزت کے دربار میں حاضری کا احساس دلاکر سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔