سپاہی مقبول حسین جس نے وفاداری، حب الوطنی اور فرض شناسی کی وہ داستان رقم کی جس کا قرض ہم نسلوں تک نہ چکا سکیں گے۔
17 ستمبر 2005 وہ دن تھا جب سپاہی مقبول حسین 40 سال بعد اپنی ڈیوٹی پر واپس آ گیا تھا۔ 28 اگست 2018 کو وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو گیا۔ آج کے دن اپنے بچوں کو اس قومی ہیرو کے بارے میں ضرور بتائیں۔
17 ستمبر 2005 کو واہگہ بارڈر پر انڈیا نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا۔ اس گروپ میں مختلف رنگ، شکل اور نوعیت کے قیدی تھے اور ان قیدیوں کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان وغیرہ تھا۔
لیکن اس گروپ میں ایک ایسا بوڑھا پاکستانی قیدی بھی تھا جس کے ہاتھوں میں کچھ نہ تھا۔ اس کے جسم پر ہڈیوں اور اسکی ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی کھال کے علاوہ گوشت کا نام تک نہ تھا اور اس کا جسم مڑا ہوا سا تھا۔ سر پر جھاڑیوں جیسے بال ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اک طویل عرصے تک ان بالوں نے کنگھی یا تیل کی شکل ہی نہیں دیکھی ہوگی۔ لیکن ان تمام تکالیف کے باوجود اس قیدی کی آنکھیں سب سے مختلف تھی اور ان آنکھوں میں اک عجیب سی چمک تھی۔
پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد تمام قیدیوں کو جانے دیا گیا اور وہ سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ لیکن یہ بوڑھا کمزور قیدی جو اپنے گھر کے بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل پڑا۔ وہ اپنے کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھ کر النی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ اور یوں یہ بوڑھا شخص اپنی منزل پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا۔
وہاں پہنچ کر اس نے ایک ایسا دعویٰ کیا کہ سب حیران رہ گئے۔ اس دعوے کے پیش نظر اس کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کیا گیا۔ رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے، کانپتے ہوئے ہاتھوں والے شخص میں کہاں سے اتنی ہمت آئی کہ اس نے اک نوجوان فوجی کی طرح اپنے سینئیر کو سلیوٹ کیا اور کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا کہ:
سپاہی مقبول حسین 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے۔
کمانڈر کو اس بوڑھے لاغر، ناتواں، کٹی ہوئی زبان والے شخص کے اس دعوے نے حیرت میں ڈال دیا۔ کمانڈر کبھی اس کاغذ کا دیکھتا اور کبھی اپنے سامنے کھڑے اس کمزور بوڑھے شخص جس نے کچھ دیر پہلے نوجوانوں کی طرح سلیوٹ کیا تھا۔
کمانڈر کے حکم پر اس بوڑھے شخص کے لکھے ہوئے نام کی مدد سے فوجی ریکارڈ کی پرانی گرد بھری فائلیں دیکھی گئیں اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی اور یہ داستان جاننے کے بعد پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس بوڑھے شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے۔
اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا۔
انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن سے لڑ رہے تھے کہ وہ ایک جھڑپ میں زخمی ہوگئے ۔ ساتھی سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو اس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بجائے زخمی حالت میں میں آپکا بوجھ بنوں میں مقابلہ کرتے ہوئے آپ کے لیے راستہ مہیا کرتا ہوں۔ ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر ساتھیوں سے اوجھل کرلیا۔ اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد جب قیدیوں کی فہرستوں کا مطالبہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول کا ذکر نہیں کیا۔ اس لئے ہمارے فوجی حکام نے سپاہی مقبول حسین کو شہید تصور کر کے شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا۔
ادھر بھارتی فوجی سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگے۔ اسے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں بند کر دیا جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا اور نہ لیٹ سکتا تھا۔ دشمن مظالم کے بعد بھی اس فوجی سے کچھ اگلوا نہ سکا۔ جب بھارتی فوجی دیکھتے کہ یہ سپاہی پاکستان کے بارے میں کوئی راز نہیں بتا رہا تو وہ اس پر مزید تشدد کرتے ہیں اور سے کہتے کہو "پاکستان مردہ باد" اور یہ اپنی ساری توانائی اکٹھی کر کے نعرہ مارتا کہ: پاکستان زندہ باد۔
وہ سارے اسے پاگل کہنا شروع کر دیتے سپاہی مقبول حسین کہتا کہ ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے لیے، اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کے لیے، میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت کے لئے۔ سپاہی مقبول حسین کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے۔ بھارتی اہلکاروں نے بدلہ لینے کے لیے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور انہیں پھر اسی طرح اندھیری کوٹھڑی میں ڈال دیا۔
سپاہی مقبول حسین نے اپنی زندگی کے چالیس سال اس اندھیری کوٹھڑی میں گزار دیئے۔ کٹی ہوئی زبان سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن پھر بھی اپنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے اندھیری کوٹھڑی کی دیواروں پر پاکستان زندہ باد لکھ دیتا۔ یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن وطن کی محبت میں گزارتا رہا۔
سپاہی مقبول حسین 28 اگست 2018 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آئیں ہم سب مل کر اس قومی ہیرو کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔