شہادت حسین رضی اللہ عنہ اور اس کا پس منظر

‏ ایک بار صحابہ کرام سیدناعمر فاروق کے گرد جمع تھے کہ انہوں نے صحابہ سے دریافت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے فتنوں کی نشاندہی کے فرمان جسے زیادہ یاد ہوں وہ بیان ‏کرے، تو حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس کے بارے میں زیادہ علم رکھتاہوں کیونکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے فتنوں کے ‏بارے اکثر پوچھتے رہتے تھے تاکہ وہ ان فتنوں سے بچ جائیں ، سیدنا عمر نے کہا کہ تم ایک دلیر آدمی ہو تو بتاؤ کہ آپ ﷺ نے کیا کہا تو سیدنا حذیفہ کہنے لگے کہ؛
آپ ‏ﷺ سے میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ انسان کو اہل وعیال اور مال میں جو فتنے پیش آتے ہیں ان میں سے اکثر نماز روزہ،صدقات اور اچھی باتوں کے کہنے اور بری ‏باتوں سے دور رہنے سے مٹ جاتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس فتنے کے بارے میں تم سے نہیں پوچھ رہا۔‏ میں تو اس فتنہ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ‏جو سمندر کی طرح یا سمندر کی موجوں کی طرح لہریں مارتا ہوگا۔ حضرت حذیفہ نے کہا امیر المؤمنین اس فتنے سے آپ کو نقصان نہ پہنچے گا کیونکہ اس کے اور آپ کے ‏درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ تو حضرت عمر نے دریافت کیاکہ یہ دروازہ ٹوٹ جائے گا یا کھولا جائےگا۔‏ تو حضرت حذیفہ نے جواب دیا کہ یہ دروازہ ٹوٹ جائے گا تو ‏حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جوابا فرمایا کہ پھر یہ کبھی بند نہیں ہوسکے گا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں ، ایسا ہی ہے، مسروق تابعی رحمہ اللہ نے حضرت حذیفہ سے اس ‏دروازے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ دروازہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود تھا۔اور قیامت تک دروازہ بند نہ ہونے کا مطلب تھا کہ دروازہ ‏ٹوٹنے کے بعد فتنے پھیل جائیں گے اور قیامت تک ختم نہیں ہونگے۔‏ (صحیح بخاری 7096)

سیدنا عمر فاروق کی شہا دت کی صورت میں یہ دروازہ جب ٹوٹا تو پھر یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ بڑھتا ہی چلا گیا۔‏ یہاں تک سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا حسین کی شہادتیں، جنگ ‏جمل، جنگ صفین، واقعہ الحرۃ ، واقعہ کربلا جیسے دل سوز واقعات ، خوارج، معتزلہ اور قرامطہ جیسے فرقوں کا ظہور ہوا۔ جس نے عمر فاروق کو فتنوں کے آگے ایک بند ثابت ‏کر دیا۔ انہیں حادثوں اور واقعات میں سے نواسہ رسول ﷺ سیدنا حسین کی شہادت اور واقعہ کربلا کا رونما ہونا بہت سی ناگزیر وجوہات کی بنا پر بہت زیادہ اہمیت کا حامل ‏ہو گیا۔ اور اس واقعہ نے تاریخ اسلام پر بہت دورس رس نتائج مرتب کئے۔



‏60 ہجری میں سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے وفات پا جانے کے بعد نامزد خلیفہ یزید نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی اور گورنر مدینہ مروان بن حکم کو سیدنا حسین ؓ ‏اور سیدنا ابن زبیر ؓ سے بیعت لینے کی تاکید کی۔ مگر دونوں اصحاب نے دانائی سے ساتھ انکار کیا اور مدینہ سے مکہ کی طرف چل نکلے تاکہ گورنر مدینہ مروان کے دباؤ سے ‏بچ سکیں۔ قیام مکہ کے دوران سیدناحسین ؓ کو کوفیوں کی طرف سے پیغامات آنے شروع ہوگئے کہ خلافت اصل میں آپ کا حق ہے، آپ یہاں عراق یعنی کوفہ میں ‏ہمارے پاس آجائیں۔ یہاں سب آپ کے حمایتی اور خیرخواہ ہیں، ہم آپ کے ہاتھ پربیعت کریں گے۔جس پر سیدنا حسین ؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم ؓ بن عقیل کو صحیح ‏صورت حال جاننے کیلئے عراق بھیجا ۔ مسلم ؓ بن عقیل کوفہ پہنچے ہی تھے کہ چندہی دنوں میں 18 ہزار کوفی شہری مسلم ؓ بن عقیل کے ساتھ مل گئے۔ جس کا جذبہ جنوں ‏دیکھ کر مسلم نے حضرت حسینن ؓ کو فوراً کوفہ پہنچنے کا خط لکھ دیا۔

اس نکتہ پر تمام تاریخی کتب متفق ہیں کہ حضرت حسین جب کوفہ جانے کی تیاری میں تھے تو ان کے عزیزوں اور قریبیوں نے انہیں روکنے کی پوری کوشش کی تھی اور ‏خطرناک صورت حال سے بھی آگاہ فرما دیا تھا۔ ان روکنے والے اصحاب میں سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابو سعید خدری، سیدنا ابو الدرداء، سیدنا ابو واقد لیثی، سیدناجابر بن ‏عبداللہ، سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس اور حسین رضی اللہ عنہم کے بھائی محمد بن الحنفیہ شامل تھے۔ مگر جانے کا پختہ ارداہ کر چکنے کے بعد سیدنا حسین ؓ رکنے پر آمادہ نہ ‏ہوئے ۔ کیونکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی مسلسل کوفہ آنے کی دعوت کو ٹھکرانا نہیں چاہتے تھے۔

دوسری طرف عراق میں ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ مسلم بن عقیل کی خبر ابن زیاد گورنر کوفہ تک پہنچ گئی اور گورنرکوفہ سے ان کا ٹکراؤ ہوگیا اورمعمولی سا خطرہ ‏دیکھتے ہوئے سارے کوفی ساتھ چھوڑ گئے اور مسلم کے ساتھ صرف 30لوگ باقی رہ گئے۔ بھلایہ 30 افراد کیا کرتے وہ بھی ابن زیاد کے گھیرے میں آگئے، اس دوران ‏مسلم ؓ بن عقیل شدید زخمی ہو گئے اور وفات سے پہلے کسی قریبی شخص سے حضرت حسین تک اپنی وصیت پہنچانے کا وعدہ لیا اور اس وصیت میں آپ کو تلقین کی تھی کہ ‏آپ عراق ہرگز ہرگز نہ آئیں اور جہاں تک پہنچے ہیں، وہیں سے واپس لوٹ جائیں اور میں کوفہ کے لوگوں کی بے وفائی کی بھینٹ چڑھ چکا ہوں۔



یہ بھی سب مؤرخین کے ہاں اتفاقی بات ہے کہ سیدنا حسین کو کوفہ کی جانب بڑھتے ہوئے راستے میں ہی اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل کی شہادت کا علم ہو گیا تھا۔ جو ‏آپ کیلئے کوفہ کے حالات جاننے کی غرض سے بھیجے گئے تھے۔ اس افسوس ناک خبر کے بعد سیدنا حسین ؓ کا اہل کوفہ سے اعتماد اٹھ گیا تھا اور آپ واپسی کیلئے تیار ہو گئے ‏تھے، لیکن مسلم بن عقیل ؒ کے بھائیوں نے اپنے بھائی مسلم کا بدلہ لئے بغیر واپس جانے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کے جواب میں سیدنا حسین نے کہا تھا کہ میں تمہارے ‏بغیر زندہ رہ کر کیا کروں گا؟
فھم ان یرجع وکان معہ اخوۃ مسلم بن عقیل فقالواواللہ لا نرجع حتی نصیب بثارنا او نقتل (تاریخ طبری: ۲۹۲/۴، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرۃ: 1939ء)‏
اور یوں اس قافلے کا سفر کوفے کی طرف جاری رہا۔

یہاں بھی تمام کتب تاریخ میں یکسانیت پائی جاتی ہے کہ سیدناحسین رضی اللہ عنہ جب مقام کربلا پر پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو بالجبر آپ کے مقابلے ‏کے لیے بھیجا۔ مگر پھر بھی عمر بن سعد نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے مذاکرات کئے ۔ متعدد تاریخی روایتوں کے مطابق سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان ‏کے سامنے یہ تجاویز رکھیں۔
‏ اختر منی احدیٰ ثلاث اما ان الحق بثغر من الثغور واما ان ارجع الی المدینۃ واما ان اضع فی ید یزید بن معاویۃ فقبل ذلک عمر منہ (الاصابۃ: ۷۱/۲ ‏
یعنی میری تین تجویزوں میں سے ایک مانی جائے۔ مجھےکسی اسلامی سرحد پر جانے دیا جائے یا واپس مدینہ منورہ لوٹنے دیا جائے یا پھر مجھے براہ راست یزید بن معاویہ کے ‏ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے دیا جائے،ان میں سے تیسری تجویز یا شرط عمر بن سعد نے قبول کر لی۔
ابن سعد نے خود یہ تجویز منظور کر لینے کے بعد ابن زیاد (گورنر کوفہ ) کو لکھ بھیجی ،جس نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور اصرار کرنے لگا کہ پہلے وہ یزید کے لیے ‏میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔
فکتب الیہ عبید اللہ (ابن زیاد) لا اقبل منہ حتی یضع یدہ فی یدی (الاصابۃ: ۷۱/۲، الطبری: ۲۹۳/۴)‏
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار ہوئے اور نہ ان کی خودداری نے یہ گوار کیا۔

ان تاریخی شواہد سے یہ نمایاں ہو تاہے کہ سیدنا حسین کے ذہن میں کچھ تحفظات تھے، جنہیں دور کرنا چاہتے تھے اور دور ہونے پر آپ نے یزید کی حکومت کو تسلیم کر ‏لینے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔ مگر آپ کی تجویز ابن زیاد کی طرف سے مسترد کئے جانے کے بعد ایسا کچھ بھی ممکن نہیں ہوا۔



چنانچہ ابن زیاد کا ایک لشکر شمر ذی الجوشن کی قیادت میں آیا ، جس کے آنے کے بعدمفاہمت اور مصالحت کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور تصادم ناگزیر ہوگیا۔ پھر 10 ‏محرم الحرام61ہجری کو کربلا کے میدان میں یہ معرکہ ہوا۔ سیدنا حسین ؓ بھی اپنے72 ساتھیوں کے ساتھ مقابلے کیلئے نکلے۔ جو بہادری سے لڑتے ہوئے ایک ایک ‏کرکے سب شہید ہوگئے۔ ایک شقی القلب سنان بن انس نے آگے بڑھ کر سیدناحسین ؓکا سر مبارک تن سے جدا کردیا ۔اس طرح آپ کی مظلومانہ شہادت کا یہ انتہائی ‏افسوس ناک واقعہ رونما ہو گیا۔ اس معرکہ میں علی بن حسین ؓ کے علاوہ تمام مرد شہید ہوئے۔ یہی علی بن حسین ؓ بعد میں زین العابدین کے نام سے مشہور ہوئے۔

اس تفصیل سے اس واقعے کے ذمہ دار بھی نامزد ہو جاتے ہیں ۔سیدنا حسین کی تجویز مسترد کرکے میدان جنگ سجانے والے اور شہید کرنے والے ابن زیاد اور اس کے ‏کارندے تھے، جن میں اکثریت کوفہ والوں کی تھی جنہوں نے آپ کو خط بھیج بھیج کر بلایا تھا، انہی کوفیوں نے عمر بن سعد کی مصالحتی کوششوں کو ناکام بنایا جس کا نتیجہ ‏کربلا کے المناک سانحے کی صورت میں نکلا۔ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّہِ قَدَرًا مَّقْدُورًا ۔

سیدنا حسین ؓ کی شہادت کے بعد ان کا باقی قافلہ پہلے کوفہ اور پھر شام بھیج دیا گیا۔ یہ وقوعہ یزید کو بتائے بغیر بر پا کیا گیا جبکہ تاریخی روایات کے مطابق اس کی طرف سے ‏صرف بیعت لینے یا بحفاظت شام بھجوانے کا حکم دیا گیا تھا، لڑنے یا شہید کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی تھی۔

بہت سے مسلمانوں میں اس واقعہ کے بارے میں سخت افراط و تفریط اورنا قابل بیان خود ساختہ جذباتی قصے، کہانیاں مشہور ہو گئی ہیں جن میں اکثر کا تعلق چھوٹے معصوم ‏بچوں اور اہل بیت کی عصمت ماب خواتین سے ہے جبکہ یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ سیدنا حسین ؓ اور ان کے اہل وعیال حق کے علمبرداراورراہِ شہادت کے مسافر ‏تھے۔ شہادت ان کی چاہت اور خواہش تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے اہل بیت اور اپنی تمام اُمت کو صراط مستقیم میں مشکلوں اور مصیبتوں کوبرداشت کرنے کا درس دیا ‏جسے آپﷺ کے اہل بیت نے باطل کے مقابلے میں ڈٹ کر ثابت کیا ۔ سیدناحسین ؓ اور ان کے اہل بیت کے اس عظیم کارنامے پر خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین ‏طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کے اُسوہ کو اپنائیں۔ حق و باطل میں تمیز کرکے حق کیلئے ڈٹ جائیں چاہے اس کیلئے جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے۔

یہ با ت بھی غور طلب ہے کہ واقعہ کربلا کے پس منظر اور پیش منظر کے طور پر مسلمانوں میں رچ بس جانے والے بہت سے اعمال قرآن وسنت کی نظر میں کیا حیثیت ‏رکھتے ہیں: کیا یہ سب کچھ سنت نبوی ﷺ یا سنتِ حسینی ؓ سے ثابت ہیں یا اپنی خواہشات کی پیروی ہیں؟



تاریخی طور پر دیکھیں تویہ پہلو بھی خوب واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریمﷺ 11 ہجری میں دین اسلام مکمل ہونے کے بعد اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔ ان کے کوچ کر جانے ‏کے بعد اس دین کمی پیشی نہیں کی جا سکتی ۔ جو کچھ آپﷺ نے اپنی زندگی میں عمل کئے یا احکام دیئے یا کچھ مسلمانوں کے کردہ اعمال کو دیکھ کر آپﷺ خاموش ‏رہے ، وہ سب سنتِ نبویؐ بن گئے۔ یعنی سنت صرف وہ ہے جو آپﷺ کے اعمال، احکام اور آپ کی رضا مندیاں ہیں۔ اور آپﷺ نے مسلمانوں کو حکم دے دیا: ‏‏”عليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين” (سنن ابن ماجہ: 42)”تم پر میری سنت پرعمل کرنا لازم ہے یا پھر خلفاے راشدین کی سنت۔”‏
مزید یہ کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: فمن رغب عن سنتی فليس مني”‏ ‏”جس نے میری سنت سے ہٹ کرکوئی عمل کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔” (اور نہ ہی اس کا عمل مقبول ہے) (صحیح بخاری: 5063)‏

واقعہ کربلا وفات النبیﷺ سے 50 سال بعد محرم 61ہجری میں پیش آیا جبکہ سنتِ نبویؐ اس سے کئی دہائیاں پہلے مکمل ہوچکی تھی۔ سو واقعہ کربلا کے حوالے سے جو ‏اعمال و افعال ثواب اور نیکی سمجھ کر انجام دیئے جاتے ہیں، وہ کسی درجے میں بھی سنت شمار نہیں کئے جاسکتے، بلکہ یہ شریعتِ محمدی میں اضافہ ہے جس کا نتیجہ صرف اور ‏صرف غضب ِخداوندی ، ناراضگی رسول ﷺ اور دنیا و آخرت میں خسارے کی صورت میں ہے ۔جو سیدنا حسین ؓ کی دی گئی قربانی کی روح کے سخت خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن وسنت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں