24 مارچ 2020ء کو ایک واٹس ایپ گروپ میں کسی نے ویڈیو سینڈ کی اور ساتھ تحریری میسج بھی بھیجا کہ “شاہ داد کوٹ سندھ میں آسمان سے بارش کے ساتھ پتھر برس رہے ہیں۔”
پورا میسج یہ تھا “شاہ داد کوٹ سندھ میں پتھروں کی بارش ہو رہا ھے۔ (جی ہاں! “بارش ہورہا ہے” کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔) سندھ میں ظلم اور کرپشن اور دین اسلام سے دوری کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہوشیار کیا ہے۔ اب بھی وقت ھے کہ انسان توبہ کر لیں۔”
اس پر میں نے میسج کرکے پوچھا کہ “کیا یہ پتھر ہیں یا اولے؟ بظاہر دیکھنے میں تو آسمان سے یہ اولوں کی طرح برس رہے ہیں۔”
جواب آیا کہ”مجھے صحیح پتہ نہیں ہے ۔ کسی نے یہ ویڈیو مجھے سینڈ کی تھی تو میں نے اس گروپ میں فارورڈ کر دی۔” تو جواب سے معلوم ہوا کہ ویڈیو بھیجنے والی بے خبر بندی کو خود حقیقت کا علم نہیں۔
اگرچہ اس ویڈیو میں ان کے گرنے کی آواز پتھروں کی طرح ہی زوردار تھی۔ تاہم اس وقت بھی مجھے وہ اولے ہی لگ رہے تھے۔ ویسے بھی محکمہ موسمیات کی پشین گوئی کے مطابق ان دنوں میں پورے پاکستان میں جا بجا طوفانی بارشوں کے ساتھ زبردست قسم کی برف باری بھی متوقع تھی۔
میرے شوہر نامدار نے اس علاقے کے ایک مقامی جاننے والے سے رابطہ کرکے صورتحال معلوم کی تو معلوم ہوا کہ آسمان سے پتھر نہیں بلکہ اولے ہی برسے ہیں۔
لیکن وہ بھی عذاب الٰہی کی شکل میں نازل ہوئے ہیں اور اتنا شدید برسے ہیں کہ برفباری نے گندم کی فصل کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔
اولوں کی یہ بارش جو غلط طور پرسنگ باری کے نام سے معروف ہوئی تھی ، عذاب الٰہی کی کوئی نئی شکل نہیں ہے۔ بلکہ پہلے بھی گزشتہ کئی اقوام عالم پہ سنگ باری کا عذاب آچکا ہے۔ مثلاً قوم لوط پر آنے والے عذابوں میں سے ایک عذاب سنگ باری کا تھا جس کا ایک ایک پتھر نشان زدہ (targeted) تھا۔ اللہ تعالی اولوں اور طوفانی بارشوں کے ذریعے بھی لوگوں اور فصلوں کو تباہ و برباد کر سکتا ہے۔
اس وقت زیر بحث مسئلہ خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر ان باتوں کو غلط طور پر عام کر دینے کے متعلق ہے۔
آجکل خصوصاً اور عموماً بھی دیگر خبروں، ویڈیوز، آڈیوز اور تصاویر میں کرونا وائرس کی بیماری سے مرنے والے مریضوں کا برا حال دکھایا جارہا ہے، بکھری ہوئی میتوں کی تصاویر شیئر کی جارہی ہیں، بکھرے ہوئے نوٹ اور کرنسی سڑکوں پر پھینکی ہوئی اور اور جا بجا بکھری ہوئی دکھائی جا رہی ہے اس طرح کی لفاظی کے ساتھ کہ ہمیں پیسے نہیں چاہیئں،ہمیں دولت نہیں چاہیئں، ہمیں ہمارے عزیز چاہیئں، ہمیں اپنی زندگی چاہیے، یہ مال ودولت ہمارے کسی کام آنے والے نہیں ہیں۔ اس طرح کی پوسٹس وغیرہ سے لوگوں کو خوفزدہ اور ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن کئی مرتبہ جب ان معاملات کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سراسر جھوٹی (fake) خبریں ہیں۔
نہ صرف ہمارے گر دو پیش میں بلکہ پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر شائع اور شیئر کی گئی خبروں کی کے حقائق اور ذرائع کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ انکی authenticity کیا ہوتی ہے؟ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کرونا وائرس کی بیماری کے ان ایام میں آئے دن کوئی نہ کوئی پریشان کن خبریں، تصویریں، آڈیوز اور ویڈیوز موصول ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں اب تک اتنے افراد اس مہلک بیماری کی وجہ سے بیمار ہیں، اتنے فوت ہوچکے ہیں(کتنے بےشمار لوگ اس بیماری سے صحتیاب ہوچکے ہیں؟ اس بات کی طرف دنیا کی توجہ کم مبذول ہوتی ہے)اور شاید اب ہماری باری ہے، ہم نے اس مرض میں مبتلا ہوکر بڑی جلدی مرنا ہے اور اس فانی دنیا کو چھوڑ دینا ہے۔ کیونکہ کرونا وائرس کا معاملہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ع ذرا سی بات تھی”اندیشۂ کرونا” نےاسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے
پوری اسلامی دنیا اپنی تحقیقات و تخلیقات پیش کرنے اور اپنا علاج خود ڈھونڈنے کے بجائے اغیار کے جھانسے میں آکر ان کے زیر ہدایات زیروزبر ہوچکی ہے۔
واقعات تو یہی ہیں کہ حریمین شریفین تک بند کر دیے گئے ہیں۔ خانہ کعبہ میں طواف روک دیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں لگ بھگ تمام مساجد بند ہیں۔ عمرہ کے لیے جانے والی تمام فلائٹس بھی بندہیں۔ تقریباً پوری دنیا میں لاک ڈاؤن والی صورتحال بن چکی ہے۔ بلکہ بعض جگہوں پر تو کرفیو تک نافذ کیا گیا ہے۔
اس خطرناک صورتحال سے شرپسند عناصر فائدہ اٹھا کر تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں بلکہ بدلی ہوئی غلط تصویر شئیر کرتے ہیں اور اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں تاکہ لوگ مزید پریشان ہوں۔
اگرچہ صورتحال پریشان کن ہے لیکن اتنی بھی نہیں جتنا کہ اس کو بنا کر دنیا میں پیش کیا جارہا ہے۔ بلکہ بنیادی طور پر لوگوں کو صرف ذہنی و نفسیاتی لحاظ سے ڈرایا اور خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ حوصلہ افزا اور امید بھری خبریں بہت کم پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ ناامیدی اور مایوسی کی فضا جان بوجھ کر پیدا کی جارہی ہے۔ لیکن یہ ناامیدی امت مسلمہ کے قابل قدر اور قیمتی افراد کے شایانِ شان نہیں ہے۔ انہیں تو ملت کے مقدر کے روشن تارے بننا ہے۔ اپنی اپنی صلاحیتوں، ٹیلنٹس اور پوٹینشیلز کے مطابق ملک و ملت کی خدمات سرانجام دینی ہیں۔ غیر سنجیدگی اور غفلت کے رویوں کو چھوڑ کر بلکہ اپنے آپ کو خواب غفلت سے بیدار کرکے اہل جہاں کے لیے امید کے روشن دیے جلانے ہیں۔
علامہ اقبال نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
ع افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہمیں چاہیے کہ ہم امت مسلمہ کے ذمہ دار افراد ہونے کے ناطے اس نازک وقت میں اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور اپنے نجی محافل میں ذاتی گفتگو اور ڈسکشنز کے علاوہ میڈیا پرخصوصاً سوشل میڈیا پر زبانی و تحریری طور پر صرف حوصلہ افزا پیغامات، امید بھری باتیں، تحریریں اور پوسٹیں لکھا اور بھیجا کریں اور ناامیدی اور مایوسی یا صرف تنقید برائے تنقید والے پیغامات وغیرہ قطعاً شیئر (share) نہ کیا کریں۔ سوشل میڈیا پر ہمارا یہ کردار بہت محنت طلب، پر مشقت اور کٹھن لیکن بے حد اہمیت کا حامل ہے اور کٹھن لیکن بے حد اہمیت کا حامل ہے اور یہ ہمارے لئے صدقہ جاریہ کا باعث ہوگا۔ چراغ سے چراغ جلیں گے، دیوں سے دیے روشن ہوں گے، شمعوں سے شمعیں جگمگائیں گی تو تاریکی، مایوسی اور ناامیدی چھٹے گی اور ہر طرف روشنی اور اجالے کا نور پھیل جائے گا، سچائی غالب آئے گی اور جھوٹ مٹ جائے گا۔ ان شاءاللہ
ع سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ہمارا کام لوگوں کے دلوں میں امید کی مشعلیں روشن کرنا ہو، نہ کہ ان کو پریشان کرنا مقصود ہو۔ لوگوں کے زخم بھرنے کی کوشش ہو، نہ کہ ان پر نمک چھڑکنا مقصود ہو۔ خدمت خلق کی خواہش ہو، نہ کہ ذہنی اور نفسیاتی تشدد کرنا مقصود ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ
بشروا ولا تنفروا
“ان (لوگوں) کو اچھی خبر دیا کرو اور انہیں متنفر نہ کیا کرو۔”
دنیا کا امام، لیڈر میر کارواں بننے کے لئے اپنے اندر ان خوبیوں کو پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ع نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
اللہ تعالیٰ ہمیں لوگوں کے لیے فائدہ مند بنائے اور ہمیں ان کے کام آنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری ان چھوٹی چھوٹی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین۔