دور فتن میں رمضان، نیکیوں کا موسم بہار

میرے ایک قریبی عزیز نے، جو ڈاکٹر ہیں، یہ حقیقی قصہ سنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ “میرے پاس ماہ رمضان میں ایک مریض آیا۔ وہ مرد مردانہ حسن کا نمونہ تھا۔ اس کی شکل وصورت اتنی خوبصورت اور قد کاٹھ ایسا نمایاں تھا کہ وہ دور سے ہی سب میں ممتاز لگ رہا تھا۔ قد اتنا اونچا لمبا تھا کہ تقریباً دروازے تک پہنچتا تھا۔ چہرے کا رنگ انتہائی سرخ وسفید تھا۔ اور ظاہراً اس کی شخصیت نہایت شاندار تھی۔ اس نے اپنے مسئلے کے علاج کے لیے ڈاکٹر صاحب کو چیک اپ کروا کر ان سے دوائی لی۔ اب اسے رگ میں انجیکشن بھی لگانا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے پوچھا کہ “کیا آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے؟” تو وہ بولا “نہیں۔” ڈاکٹر صاحب نے پوچھا “کیوں؟” تو وہ کہنے لگا کہ “ڈاکٹر صاحب! مجھے کبھی کبھی fits (دورے) پڑتے ہیں، اس لیے میں روزے نہیں رکھتا۔” ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ “fits کے علاج کے لیے روزے تو فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔” اور اسے مزید کچھ باتیں سمجھائیں تو پھر وہ بولا کہ “ڈاکٹر صاحب! اصل بات یہ ہے کہ جب سے میں پیدا ہوا ہوں، میں نے کبھی ایک دن بھی روزہ نہیں رکھا۔” ڈاکٹر صاحب نے حیرانی سے پوچھا کہ “آپ روزے کیوں نہیں رکھتے؟” تو وہ جواب میں کہنے لگا کہ “مجھے میرے والدین نے روزہ رکھنے کا نہ کبھی کہا ہے اور نہ وہ خود روزے رکھتے ہیں۔ اسی طرح اب نہ میں، نہ میری بیوی، اور نہ ہی میرے بچوں میں سے کوئی روزے رکھتا ہے۔ اب میں ایک دم اتنی شدت کی گرمی میں کس طرح روزے رکھوں؟ یہ بات میرے بس سے باہر ہے۔” ڈاکٹر صاحب پریشان ہو کر رہ گئے۔ ان سے جب میں نے یہ واقعہ سنا تو میں بھی حیران رہ گئی کہ ایسی صحت، قد کاٹھ اور خوبصورتی کس کام کی کہ انسان رب تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے روزہ بھی نہ رکھ سکے!

ایک بہت خوبصورت حدیث قدسی ہے۔ حدیث قدسی درحقیقت رب کریم کی طرف سے اپنے بندوں کے نام نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے خصوصی پیغام ہوتا ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں سے خود مخاطب ہوتے ہیں۔
اس حدیث کے مطابق
“کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِاَمْثَالِھَا اِلٰی سَبْعِ مِا ئَۃٍ ضِعْفٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی اِلَّا الصُّوْمُ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہ۔ٖ” (صحیح مسلم)
ترجمہ: “ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔”

روزہ ارکانِ اسلام میں سے تیسرا رکن ہے اور ماہِ رمضان میں ہر عاقل، بالغ، تندرست، مقیم مومن مرد و عورت پر فرض ہے جسے بغیر کسی شرعی عذر کے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ مریض اور مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن ان کو اس کی قضا بعد میں ادا کرنا ہو گی۔ حیض و نفاس والی خواتین بھی مریضہ کے حکم میں شامل ہیں۔
قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے۔
يَايُّه‍َا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرة: ١٨٣)
ترجمہ: “اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔”
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ گزشتہ تمام امتوں پر فرض رہا ھے اور اب امت محمدیہ کے ھر بالغ مردوعورت پر بھی اس کی ادائیگی لازم ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے.
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَفَلْیَصُمْهُ۔ (البقره: ١٨٥)
ترجمہ: “تم میں سے کوئی بھی ماہ رمضان کو پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔”
ماہ رمضان، جس کے روزے رکھنے کی ھمیں تاکید کی گئی ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جناب میں بہت اہم مہینہ ہے اور اس کی یہ فضیلت واہمیت کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ اسکے پیچھے ایک زبردست تاریخی عمل موجود ہے اور وہ یہ کہ تمام آ سمانی کتب ماہِ صیام ہی میں نازل کی گئیں جن میں تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید شامل ہیں۔
الل تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
شَه‍ْرُ رَمَضَانَ الَّذِىْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ه‍ُدَّى لِّنَّاسِ وَ بَيِّنٰتِ مِّنَ الْه‍ُدىٰ وَالْفُرْقَانْ۔ (البقرة: ١٨٥)
ترجمہ: “رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے، راہِ حق دکھانے والی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی کتاب ہے۔”
پھر مزید وضاحت ہوتی ہے۔
اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِىْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔ (القدر:١)
ترجمہ: “ہم نے اس قرآن کو لیلۃالقدر میں نازل فرمایا ہے۔”
یہ لیلۃالقدر کیا ہے؟ اور آپ کیا جانیں کہ یہ کیا ہے؟ یہ تو ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔اور اس رات میں بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے اللّٰہ نے قرآن پاک کا ہدایت نامہ نازل فرما کر جو احسان کیا، وہ یقیناً ہزار ماہ میں بھی سر انجام نہیں پایا تھا۔

روزے کی غیر معمولی فضیلت واہمیت کیوں؟
سوال یہ ہے کہ روزے کی یہ غیر معمولی فضیلت واہمیت کیوں ہے؟ اس کی وجہ بھی اسی حدیث میں بیان کر دی گئی ہے کہ
يَدَعُ شَه‍ْوَتَهٗ وَ طَعَامَهٗ مِنْ اَجْلِىْ۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: “روزہ دار میرے لیے اپنی خواہشاتِ نفس اور کھانے پینے کو چھوڑ دیتا ہے۔”

دراصل بات یہ ہےکہ دوسری تمام نیکیاں انسان کسی نہ کسی ظاہری فعل سے ادا کرتاہے لیکن روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا مخفی عمل ہے جو فقط انسان اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے اور اسی بنا پر اس میں ریا کاری کا امکان نہیں ہوتا کہ وہ اللّٰہ کو کسی طور دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ، روزہ دار کھانے پینے اور شہوانی خواہشات سے بے نیازی اختیار کر کے اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔لہذا وہ ﷲ کو محبوب ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ: اَلصَّوْمَ لِیْ وَ اَنَا اَجْزِیْ بِهٖ۔(صحیح مسلم)

مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ روزے کی بے حد و حساب جزا دیں گے۔ جتنے گہرے جذبے اور اخلاص کے ساتھ انسان روزہ رکھے گا، جتنا تقویٰ اختیار کرے گا، روزے سے روحانی و دینی فوائد حاصل کرے گا اور پھر بعد میں بھی ان فوائد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا تو اللّٰہ رب العزت کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جاۓگی۔
ایک حدیث میں روزے کی فضیلت اور اس کا ثواب یوں بیان کیا گیا ہے۔
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ۔ (صحیح بخاری)
ترجمہ: “جس نے اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہوئے رمضان کے روزے محض ثواب سمجھ کر رکھے، اس کے پہلے سب گناہ بخش دیئے گئے۔” اسی حدیث میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ۔ (صحیح بخاری)
ترجمہ: “جس نے اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہوئے رمضان کی راتوں کا قیام محض ثواب سمجھ کر کیا، اس کے پہلے سب گناہ بخش دیے گئے۔”
ع کیا ہماری نماز، کیا روزہ
بخش دینے کے سو بہانے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ “جب کوئی شخص بھول کر (روزہ میں) کھالے یا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے، اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے۔”( صحیح بخاری: 1812)
حضرت نعمان بن ابی عیاش ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ “بےشک جو شخص اللہ کی راہ میں ایک دن بھی روزہ رکھے، اللہ اس کو دوزخ سے ستر برس کی مسافت کے برابر دور کر دیتا ہے۔” (صحیح بخاری: 104)

ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ.
(سنن نسائی: 2230 ،2231)
ترجمہ: “روزہ (دنیا میں گناہوں اور آخرت میں جہنم سے بچانے والی) ڈھال ہے۔ جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔”
ایک اور حدیث کے مطابق:
“جس شخص نے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کروایا تو اس کو روزے دار جتنا ہی اجر و ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ روزے دار کے اپنے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔” (سنن ترمذی)
روزے رکھواؤ، کھلواؤ، جنت پاؤ
بندہ تو دو وقت کا کھانا ڈھونڈ رہا ہے

روزہ سحری و افطاری میں صرف رنگارنگ کھانے پکانے اور کھانے کا نام نہیں ہے۔ روزہ
رکھ کر اپنے اردگرد کے لوگوں پر بھی توجہ رہنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے گھر میں کھانوں کی فراوانی ہو، طرح طرح کے پکوان بن رہے ہوں اور ان کی خوشبو غریب ہمسایوں کے لیے آزمائش بن جاتی ہو۔
ع کہیں روزے پہ روزے صرف پانی پی کے کھلتے ہیں
کہیں بس نام پہ روزوں کے، افطاری کی باتیں ہیں

ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: “روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں۔ ایک افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی۔اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ عزوجل کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (خوشبودار) ہے۔” (صحیح مسلم: 213)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور خاص طور پر رمضان میں، جب جبرائیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی ہوتے تھے اور جبرائیل آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے اور قرآن کا دور کرتے۔ نبی علیہ السلام بھلائی پہنچانے میں ٹھنڈی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔” (صحیح بخاری:5)

حضرت سہل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ “جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو “ریان” کہتے ہیں۔ قیامت کے دن اس دروازے سے روزے دار ہی داخل ہوں گے، کوئی دوسرا داخل نہ ہوگا۔ کہا جائے گا کہ “روزہ دار کہاں ہیں؟” وہ لوگ کھڑے ہوں گےاور اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا اور اس میں کوئی داخل نہ ہوگا۔” (صحیح بخاری: 1778)

رمضان نیکیوں کا موسم بہار!
رمضان کیا ہے؟ نیکیوں کا موسمِ بہار! جس میں نیکیاں اس طرح بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں جس طرح موسمِ بہار میں سبزہ! اس کے آنے پر جنت سجا دی جاتی ہے اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ہر نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر کر دیا جاتاہے اور ہر فرض کا ثواب ستر گناہ بڑھا دیا جاتا ہے اور ایک پکارنے والا فرشتہ پکار کر کہتا ہے کہ
“يَا بَاغِىَ الْخَيْرِ اَقْبِلْ وَ يَا بَاغِىَ الشَّرِّ اَقْصِرْ ”
ترجمہ: “ا ے بھلائی کے طالب! آگے بڑھ۔ اے برائی کے طالب! پیچھے ہٹ۔” (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ “اگر کوئی فرد رمضان کا روزہ بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑ دے، وہ بعد میں اگر ساری عمر بھی مسلسل روزے رکھتا رہے، تب بھی وہ رمضان کے روزے کی فضیلت کو نہیں پا سکتا۔”
اور اگر کوئی بغیر شرعی عذر کے روزہ توڑ دے تو اس کو کفارے کے طور پر ایک غلام آزاد کرنا ہو گا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے یا پھر ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا مناسب کھانا کھلانا ہو گا۔ (صحیح مسلم)
ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبر کی دوسری سیڑھی پر چڑھے تو جبریل امین آۓ اور کہا ” اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس شخص پر اللّٰہ کی لعنت ہو جس کی زندگی میں رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور اس نے باوجود صحت و تندرستی کے روزہ نہ رکھا۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” آمین!”

بد نصیب ہے وہ شخص جس نے اتنا با برکت مہینہ پایا مگر کمزوری و لاغری کا خود ساختہ بہانہ کر کے روزہ نہ رکھا۔ پھر وہ نہ صرف رمضان کی ہر خیر و برکت سے محروم رہا بلکہ جبریل امین اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی بددعا کا مستحق بھی بن گیا۔
ربِّ کائنات کے حضور استدعا ہے کہ وہ ہم سب کو رمضان کے ثمرات سے فیض یاب ہونے، نیکیوں اور بھلائیوں میں اضافہ کرنے اور اپنے مقرب و صالح بندوں میں شامل ہونے کی سعادت سے بہرہ مند فرماۓ۔ آمین ثم آمین۔ یارب العالمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں