1. قربانی کی تاریخ حضرت آدَم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی تھی جو رب کریم کے حضور پیش کی گئ
2. انسانی تاریخ کےآغاز سے لے کر کسی دور میں بھی اس شعیرہ کو رب کریم نے منسوخ کرنا پسند نہیں کیا، ہر دور میں، ہر امت کے لیے اسے مشروع کیا
وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔“ سورہ حج، 34
ترجمہ:۔”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا تھا کہ وہ ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں کو قربان کرتے وَقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے تھے“۔
باالخصوص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کے بعد اس کی شان اور بھی بڑھ گئی اور اسے رہتی دنیا تک عبادت الہی کی ایک عظیم نشانی قرار دے دیا گیا.
3. اس کا بنیادِی مقصد خالق کائنات کی یاد، اس کی کبریائی کا اظہار، اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی خو، اس کی نعمتوں کی شکر گزاری اور اس کے احکام کی بجاآورِی ہے. اِنسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب مقصود ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے؛ بلکہ دِل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، ان حقائق کو اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورت انداز میں واضح کرتے ہوئے فرمایا
لَن یَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاۤؤُهَا وَلَـٰكِن یَنَالُهُ ٱلتَّقۡوَىٰ مِنكُمۡۚ كَذَ ٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمۡ لِتُكَبِّرُوا۟ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡۗ وَبَشِّرِ ٱلۡمُحۡسِنِینَ، سورة الحج، ٣٧
الله کو ان کا گوشت پہ پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا خون، البتہ تمہاری پرہیز گاری اس کے ہاں پہنچتی ہے…
قربانی دیگر عظیم روحانی پیغامات کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی درس دیتی ہے کہ میرا مال رب کریم کے لیے ہے، شاید اسی مناسبت سے جیسے نماز اور زکوٰۃ کا یکجا تذکرہ ہے، متعدد مقامات پر قربانی اور نماز کا بھی ایک ساتھ تذکرہ ہے.
قربانی اس بات کا بھی عہد ہے کہ مولا، تیری راہ میں میری جان بھی حاضر ہے، اس مناسبت سے قربانی کے ساتھ جینے مرنے کو رب العزت کے لیے خالص کرنے کا تذکرہ ہے
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، الأنعام 162
4. قربانی کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے شعائر میں سے قرار دیا ہے، الحج 36
ان دلائل وشواہد کی بنا پر امت کا اس کی مشروعیت واہمیت پر اجماع ہے. تاہم اس میں اختلاف ہے کہ اس کی اہمیت سنت مؤکدہ کے درجے کی ہے یا ایک فرض کے سطح کی، ہمارا رجحان اس طرف ہے کہ یہ صاحب استطاعت کے لیے فرض کے لیول پر اہم ہے، اس کے دلائل درج ذیل ہیں.
پہلی دلیل
قرآن مجید میں اسے نماز کے ساتھ جوڑ کر ذکر کیا گیا ہے، اگرچہ دلالت اقتران کی حجیت میں اختلاف ہے، لیکن بہر حال قربانی کا نماز کے ساتھ بار بار تذکرہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کہ قربانی کی اہمیت کس سطح کی ہے،
اس آیت مبارکہ پر غور فرمائیں
قُلۡ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِی وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِینَ (١٦٢) لَا شَرِیكَ لَهُۥۖ وَبِذَ ٰلِكَ أُمِرۡتُ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلۡمُسۡلِمِینَ (١٦٣)﴾ [الأنعام]
اس آیت مبارکہ کا اسلوب پکار پکار کر کہ رہا ہے کہ قربانی عام درجہ کی محض تاکیدی سنت ہی نہیں، یہ اس سے بالا تر سطح کی چیز ہے.
خصوصاً وبذالک، أمرت پر غور فرمائیں.
اور پھر بعض روایات میں قربانی کرتے ہوئے اس آیت مبارکہ کا پڑھنا بھی مروی ہے.
دوسری دلیل
قربانی کے اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے نماز کے تتمے کے طور پر یوں ذِکر فرمایا”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ“
اسی آیت پر عمل کا یہ کیا خوبصورت انداز ہے کہ پہلے نماز اور بعد میں قربانی
اس آیت سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز وقربانی صرف اللہ کے لیے ہو، وہاں ان دونوں عبادتوں کا حکم اور اہمیت بھی مترشح ہوتی ہے.
وبذالک أمرت اور اس آیت میں صیغہ امر کو ملا کر دیکھا جائے، اور پھر نماز وقربانی کے اقتران کو دیکھا جائے تو قربانی کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے. اسے محض ایک تاکیدی سنت کہنا مشکل محسوس ہوتا ہے.
صل اور اِنْحَرْ صیغہ امر ہیں اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے۔
ان سے ان عبادات کا وجوب اور ان میں اخلاص دونوں بیک وقت مترشح ہورہے ہیں.
تیسری دلیل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر مواظبت،سفر وحضر اور عسر ویسر میں اس کا اہتمام بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کس قدر اہم عبادت ہے.
حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر میدان عرفات میں اعلان عام فرمایا:
اَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ عَلٰى كُلِّ اَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ اُضْحِيَّةً… ترمذی 1518،ابوداود ،نسائی..
’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی(واجب) ہے۔
چوتھی دلیل
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ له سعة فلم يضح ، فلا يقربن مصلانا.
’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘
ابن ماجه، 3123.
مذکورہ حدیث میں رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کرنے کا حکم فرمایا اور قربانی نہ کرنے والوں پر اظہار ناراضگی فرمایا ہے۔ ناراضگی کا اظہار اسی مقام پر ہوتا ہے جہاں کوئی چیز واجب و ضروری ہو۔
یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی مروی ہے.
بعض اشکالات کا ازالہ
1.بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے کہ وہ قربانی نہیں کرتے تھے،
بالخصوص بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہ وضاحت بھی ثابت ہے کہ وہ اسی لیے نہیں کرتے تھے تاکہ لوگ فرض نہ سمجھیں.
أولا
حضرت ابوہریرہ اور بعض تابعین سے اسے واجب کہنا ثابت ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صریحاً ثابت ہے کہ وہ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کو عیدگاہ کے قریب آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے. جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال آپس میں مختلف ہوں تو انہیں ایک دوسرے پر بطور حجت پیش نہیں کیا جاسکتا.
ثانیاً بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ادوار میں قربانی کو فخر ومباہات کا ذریعہ بنا دیا گیا تھا اور گھر کا ہر فرد اپنی مستقل علیحدہ قربانی کرتا تھا، ممکن ہے اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی کے لیے ایسے کیا گیا ہو.
2.صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب
اذا رایتم ھلال ذی الحجہ و اراد احدکم ان یضحی فلیمسک عن شعرہ و اظفارہ‘‘ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے بال اور ناخن تراشنے سے رک جانا چاہیے۔(صحیح مسلم)
اس حدیث میں ’’ ارادہ کرے‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ
قربانی ہر انسان کے اپنے ارادے پر موقوف ہے، چاہے تو کرے، نہ چاہے تو نہ کرے،
یہ استدلال انتہائی کمزور اور سطحی ہے، اس کا رد کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں
کہ بعض دفعہ کسی واجب چیز کے تفصیلی حکم کو واضح کرنے کے لیے ارادہ کے الفاظ مستعمل ہوتے ہیں، جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے
إذا قمتم إلی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم.. جب تم نماز کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو دھو لو… تمام علماء اس کی وضاحت میں کہتے ہیں جب نماز کا ارادہ کرو تو وضو کرو. (فتاوی ابن تیمیہ) گویا حدیث میں صرف یہ واضح کیا گیا ہے کہ ناخن کاٹنا کب منع ہوگا، تب جب ذوا الحجہ کا چاند نظر آئے اور قربانی کا ارادہ ہو، چونکہ کچھ لوگ استطاعت نہییں رکھتے سو ان کا ارادہ بھی نہیں اور ان کے لیے بال وغیرہ کاٹنا ممنوع بھی نہیں، صاحب استطاعت کے لیے ارادہ کرنا ضروری ہے کہ نہیں کہ اس حدیث کا اس سے کوئی تعلق نہیں.
آخر میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے اس اقتباس پر میں اپنی گزارشات کا اختتام کرتا ہوں، آپ لکھتے ہیں
وأمَّا الأضحية فالأظهرُ وجوبُها أيضًا، فإنَّها مِنْ أعظمِ شعائر الإسلام، وهي النُّسُكُ العامُّ في جميع الأمصار، والنُّسُكُ مقرونٌ بالصلاة في قوله: ﴿إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحۡيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ١٦٢﴾ [الأنعام]، وقد قال تعالى: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنۡحَرۡ ٢﴾ [الكوثر]، فأَمَر بالنَّحر كما أَمَر بالصلاة…»، ثمَّ قال: «ونُفاةُ الوجوب ليس معهم نصٌّ،،
زیادہ واضح دلائل کی روشنی میں قربانی واجب ہے، کیونکہ یہ اسلام کے عظیم ترین شعائر میں سے ایک ہے، تمام عالم اسلام میں یہی عمومی قربانی ہے، قرآن مجید میں قربانی کو نماز کے ساتھ متصلا بیان کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے
قل إن صلاتی ونسکی… کہ دیجیے میری نماز اور میری قربانی… نیز ارشاد ہے
فصل لربك وانحر
آپ اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی پیش کیجیے.. پس اللہ تعالیٰ نے جیسے نماز کا حکم دیا ویسے ہی قربانی کا بھی حکم دیا.
قربانی کی فرضیت کی جو لوگ نفی کرتے ہیں، ان کے پاس کوئی نص نہیں ہے.
فتاوی ابن تیمیہ.
نوٹ
موجودہ حالات میں تو بالخصوص اس شعیرہ کی اہمیت و عظمت اجاگر کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے. اسی غرض سے یہ چند کلمات رقم کیے ہیں، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے. آمین
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین.
Informative.. الحمدللہ