1930ء سے جناح تپ دق کے شکار چلے آرہے تھے اور یہ بات صرف ان کی بہن اور چند دیگر ساتھیوں کو معلوم تھی۔جناح نے اس کا اعلان عوام میں نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ انہیں سیاسی طور پر نقصان دے سکتی تھی۔
1938ء میں اپنے ایک حامی کو خط میں وہ لکھتے ہیں”تم نے اخبار میں میرے دوروں کے بارے میں پڑھا ہوگا۔۔میں اپنی خرابی صحت کی وجہ سے اپنے دوروں میں بے قاعدگیوں کا شکار تھا جس کی وجہ میری خراب صحت تھی”۔
کئی سال بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ اگر انہیں جناح کی خرابی صحت کا معلوم ہوتا تو یقینا وہ انکی موت تک انتظار کرتے اور اس طرح تقسیم سے بچا جاسکتا تھا۔
فاطمہ جناح بعد میں لکھتی ہیں کہ،” جناح اپنے کامیابیوں کے دور میں بھی سخت بیمار تھے۔۔وہ جنون کی حد تک پاکستان کو سہارا دینے کے لئے کام کرتے رہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے اپنی صحت کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا”۔
جناح اپنے میز پر کراؤن اے سگریٹ اور کیوبا کا سگار رکھتے تھے اور پچھلے تیس سال میں انہوں نے سگریٹ نوشی بہت ذیادہ کردی تھی۔ گورنمنٹ ہاوس کراچی کے پرائیویٹ حصے میں وہ لمبے وقفے آرام کے واسطے لینے لگے تھے اور فاطمہ جناح اور ذاتی عملے کو ہی ان کے قریب رہنے کی اجازت تھی.
جون 1948ء میں وہ اور فاطمہ جناح کوئٹہ روانہ ہوئے جہاں کی ہوا کراچی کے مقابل سرد تھی۔ وہاں بھی انہوں نے مکمل آرام نا کیا بلکہ انہوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے آفسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا "آپ دیگر افواج کے ساتھ پاکستان کے لوگوں کی جانوں، املاک اور عزت کے محافظ ہیں"۔
وہ یکم جولائی 1948کو کراچی روانہ ہوئے جہاں انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جلسے سے خطاب کیا،اسی شام کینیڈا کے تجارتی کمیشن کی جانب سے آذادی کے حوالے سے منعقد تقریب میں شرکت کی جو انکا آخری عوامی جلسہ ثابت ہوا.
6 جولائی 1948ء کو جناح واپس کوئٹہ روانہ ہوئے اور ڈاکٹروں کے مشورے پر آپ مزید اونچے مقام زیارت منتقل ہوئے۔اس دوران میں جناح کا مسلسل طبعی معائنہ کیا گیا اور انکی طبعی نزاکت دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بہترین ڈاکٹروں کو ان کے علاج کے لئے روانہ کیا۔مختلف ٹیسٹ ہوئے جنہوں نے ٹی بی کی موجودگی اور پھیپھڑوں کے سرطان کا بتایا۔ جناح کو ان کی صحت کی جانکاری دی گئی اور انھیں ڈاکٹروں کو اپنی حالت کے حوالے سے آگاہ رکھنے کا کہا گیا نیز فاطمہ جناح کو بھی انکا خیال رکھنے کا کہا گیا۔انھیں اس دور کے نئے "معجزاتی دوائی "سٹریپٹو مائیسن دی گئی لیکن کچھ افاقہ نا ہوا۔ لوگوں کی نماز عید میں انکے لئے کی گئی خصوصی دعاؤں کے باوجود انکی صحت برابر گرتی رہی۔
انہیں آزادی کی سالگرہ سے ایک دن قبل 13 اگست 1948کو کم اونچے مقام کوئٹہ لایا گیا انہوں نے اس دن کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا۔ان کا اسوقت وزن گر کر محض 36 کلو رہ گیا تھا ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ اگر اس حالت میں انہیں کراچی زندہ حالت میں لے جایا گیا تو تب بھی وہ کم عرصہ ہی زندہ رہ پائیں گے۔لیکن جناح کراچی جانے پر تذبذب کا شکار تھے ،وہ نہی چاہتے تھے کہ ان کے معالج انہیں بے کار اسٹریچر پر بیٹھا معزور خیال کریں۔
9 ستمبر1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح کو نمونیا نے آگھیرا۔ اب ڈاکٹروں نے انہیں کراچی کا مشورہ دیاجہاں وہ بہتر علاج کر سکتے تھے اور ان کی رضامندی پر وہ 11 ستمبر 1948کو کراچی روانہ ہوئے۔ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر الہٰی بخش کا اندازہ تھا کہ جناح کی کراچی جانے کی رضامندی انہیں اپنے زندگی سے مایوس ہونے کی وجہ سے تھی۔
11 ستمبر 1948 کو وائیکنگ طیارہ (اس وقت یہ طیارہ پی اے ایف میوزیم شاہراہ فیصل پہ موجود ہے)اس روز بھی کراچی کے اسی ماڑی پور( مسرور) اڈے پر اترا تھا جہاں تیرہ ماہ پہلے قائد اعظم دہلی سے تشریف لائے تو ان کے استقبال کے لئے چاروں طرف سر ہی سر تھے۔ مگر 11 ستمبر کی شام کو ایئر پورٹ پر ان کی چھ رکنی مختصر سی کابینہ میں سے بھی کوئی اپنے قائد کا دیدار کرنے حاضر نہیں ہوا۔ آج ہمارے صدر مملکت کسی صوبائی دارالحکومت اترتے ہیں تو پروٹوکول کے مطابق گورنر اور وزیر اعلی ان کا استقبال کرتے ہیں، مگر 11 ستمبر 1948 کو یہ پروٹوکول کہاں دھرا رہ گیا۔ قائد کی آمد کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا، انہیں ایک اسٹریچر پرایمبولینس میں ڈال دیا گیا۔ ان کے پیچھے گورنر جنرل کی سرکاری کیڈلک کار تھی جس میں ان کا ڈاکٹر اور دوسرا سٹاف بیٹھ گیا اور پیچھے ایک ٹرک تھا جس میں قائد کا سامان رکھا گیا تھا۔
نامعلوم وجہ سے قائد اعظم کی ذاتی گاڑیاں، رولس رائس اور کیڈلک (جو اب میوزیم میں موجود ہیں) ایئر پورٹ پہنچ نہ سکیں۔ان کو گورنر ہاؤس لے جانے کے لئے ایک چھکڑا قسم کی پھٹیچر ایمبولنس کھڑی ہوئی تھی۔ وقت دوپہر کا تھا۔
قائد اعظم کو اگر ایمبولنس میں ہی گورنر ہاؤس لیجانا مقصود تھا تو ان کے لئے ایک عمدہ ایمبولنس کا بندوبست کرنا مشکل نہ تھا۔ کراچی کے ارب پتی پارسی اور کرسچین قائد اعظم کے ذاتی دوست تھے۔ ان کی اسپتال تھیں کراچی میں وہ اچھی سے اچھی ایمبولینس قائد اعظم کے لئے ایئر پورٹ بھیج سکتے تھے۔
اس روز کراچی میں شدت کی گرمی تھی۔ دوپہر دو بجے ایمبولینس قائد اعظم کو لے کر گورنر ہاؤس کے لئے روانہ ہوتی ہے۔ آگے جا کر، ماڑی پور روڈ پر ایک ویران جگہ ایمبولینس رک جاتی ہے۔
ڈرائیور کے مطابق انجن میں خرابی تھی. ڈرائیور نے اسے اسٹارٹ کرنے کے لئے بہت زور آزمائی کی۔ یہ علاقہ کھلی دھوپ میں مچھلی خشک کرنے کی وجہ سے بدبو سے آلودہ تھا، چاروں طرف مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے تازہ ہوا کے لئے ایمبولینس کا پچھلا دروازہ کھول دیا تھا۔ قائد کی نرس ڈنھم نے کاغذ کے پنکھے سے مکھیاں اڑانے کی کوشش کی، قائد کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔ کرنل الہی بخش کیڈلک سے اتر کر قائد کے سرہانے پہنچے۔ نبض دیکھی، ٹمپریچر نوٹ کیا، قائد کی حالت تسلی بخش تھی۔
یہی ڈاکٹر الہی بخش ایئر پورٹ پر اس وقت سخت حیران ہوئے تھے جب ایک فوجی دستے نے قائد کو سلامی دی تو نحیف و نزار اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے ہوئے قائد نے ہاتھ اٹھا کر سلام کا جواب دیا تھا، ڈاکٹر کے مطابق قائد اپنا ہاتھ ہلانے کی سکت نہیں رکھتے تھے لیکن فولادی عزم کا انسان اپنے جوانوں کی طر ف سے سلامی پیش کرنے پر بے حس و حرکت نہیں رہ سکتا تھا۔ نجانے ان کے اندر کہاں سے بجلیاں دوڑیں اور انہوں نے جوابی سلام کرنے میں ذرا تاخیر گوارا نہیں کی تھی۔
قائد کا یہ سفر ان کی زندگی کا سفر آخرت بن گیا، چند گھنٹوں بعد ان کی نبض ڈوب گئی۔ کرنل الہی بخش نے انہیں دوائیں دیں اور قائد کے کان میں کہا: ہم نے آپ کو طاقت کا انجیکشن لگا دیا ہے، آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ قائد کے ہونٹ پھڑ پھڑائے، آخری آواز نکلی: نہیں، اب میں زندہ نہیں رہ سکتا۔
ڈیڑھ دو گھنٹے تک وہ بھٹی کی طرح تپتی ہوئی پھٹیچر ایمبولینس میں بے بس پڑے رہے۔ تب جا کر دوسری گاڑی آئی، اور وہ شام چھ بجے کے قریب گورنر ہاؤس پہنچے اور11ستمبر1948 کو رات دس بج کر بیس منٹ پر انتقال کرگئے۔