01۔ کرونا وائرس کے حملے سےپوری دنیا میں سخت خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، ہزاروں افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں، لاکھوں اس میں مبتلا ہیں، دوسو کے لگ بھگ ممالک اس سے کسی نہ کسی سطح پر متاثر ہیں، اس صورت حال میں نماز باجماعت اور مساجد میں جمعہ کے حوالے سے علماء کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں، شروع میں، یہ طالب علم بھی ان علماء کی صف میں تھا، جو بہر صورت مساجد میں نماز باجماعت اور جمعہ کے اوپن جاری رکھنے کے قائل تھے، اس حوالے سے جو اعلامیہ علماء اہل حدیث نے جاری کیا وہ ایک عظیم تاریخی دستاویز ہے، اہل علم کی حق گوئی، استقامت اور جرأت کی زندہ مثال ہے ، کبار اہل علم نے اس پر دستخط کر کے راہ نمائی کی ایک اچھی روایت قائم کی،اور اس کا بنیادی کریڈٹ مجموعہ علماء اہل حدیث کو جاتا ہے اس پر دستخط کرنے والوں میں یہ طالب علم بھی شامل تھا اور اس کے مندرجات سے ان حالات میں پوری طرح متفق بھی، اس پر علمی اعتراضات پیش کرنے والے اہل علم بھی قابل قدر ہیں لیکن اس سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے، سوقیانہ زبان استعمال کرنے والے، اور علماء کرام سے بدگمانی رکھنے نوجوان بہت ہی قابل اصلاح ہیں، رب کریم ہمیں توفیق عطا فرمائے. عملا آج صبح کی نماز بھی الحمد للہ پڑھائی ہے اور بہت سکون پایا ہے، مسجد سے جدا ہونے والے کنکر بھی دہائی دیتے ہیں (ابوداؤد)، ہم جلدی سے قبل از وقت ان مراکز سے جدائی کیسے برداشت کر لیتے لیکن ایران اور دیگر ممالک سے ہزاروں افراد کی واپسی کے بعد اس وقت کیسز بڑھ چکے ہیں، صورتحال تبدیل ہو چکی ہے،لاک ڈاؤن نافذ ہو چکا ہے، وبا کی پھیلتی سرعت وسنگینی کو دیکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے بار بار دعا اور اہل علم کی تحقیقات کو دیکھنے کے بعد میں جس نتیجہ پر فی الحال پہنچا ہوں، لوجہ اللہ تحریر کر دیا ہے، اگر غلط ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے.صحیح تو قبول فرمائے اور صدقہ جاریہ بنائے.
میری یہ پختہ رائے ہے کہ یہ وائرس ظالموں کے لیے عذاب، خطا کاروں کے لیے تنبیہ اور متقین کے لیے باعث رفع درجات ہے، اس کی حقیقی وجہ ظلم،فحاشی اور سود ہے، اس کا اصل علاج تضرع، دعا، توبہ ،اور صدقہ وخيرات ہے،
اللہ تعالی ایسی پکڑ پر یہی ترغیب دی ہے،
فلولا إذ جاءہم بأسنا تضرعوا ولکن قست قلوبھم،
اس کی پناہ میں ہی دنیا کو سکون ملے گا، ورنہ تو لاک ڈاؤن کے عین دوران یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک کروٹیاcroatia میں زلزلہ بھیج کر وہ بتا چکا ہے کہ ترقی یافتہ،یورپ اور پوری دنیا کی اوقات کیا ہے
!!!
اس کے معنوی اسباب اور علاج پر الحمد للہ میں اپنے پیج پر کئی لیکچرز ریکارڈ کروا چکا ہوں، لیکن فقہی تحقیق میں ہم ظواہر کو دیکھ کر رائے پیش کرتے ہیں، اس لیے اس تحریر کو اسی حوالے سے پڑھا جائے.
02۔ پاکستان کے تناظر میں .موجودہ صورت حال میں مریضوں کی تعداد حقیقتاً ہزاروں میں ہے اور ان سے ملاقات کرنے والے کیرئیرز کی تعداد لاکھوں میں ہے، اس لیے کوئی بھی شخص کیریئر ہوسکتا ہے، ممکن ہے جس صحتمند کیرئیر کو ہم نماز باجماعت کی اجازت دے رہے ہیں وہ کسی دوسرے کے لیے جان لیوا ثابت ہو، اس پر سب متخصصين کا اتفاق ہے، جن کی طبی رائے کو بہتر نتائج تک پہنچنے میں ایک اہمیت حاصل ہے
03۔ اس لحاظ سے ہم ان جانے اور ان دیکھے کرونا وائرس کا ہدف ہیں.
04۔ ظاہری کیفیت مجموعی طور پر تشویشناک ہے، اور ہماری عوام کی لا پرواہیاں اس پر مستزاد ہیں
.یہ من وجہ جنگی کیفیت کی طرح ہے، اور من وجہ امن کی طرح، جس طرح حالت خوف میں قرآن مجید آپشنز دیتا ہے، اسی طرح اب ہم پہلی آپشن سے نکل کر آخری میں داخل ہو چکے ہیں،
فان خفتم فرجالا أو رکبانا ، جہاں نہ صرف جماعت کی پابندی ختم ہو جاتی ہے، بلکہ قیام اور رکوع وسجود کی کیفیت تک میں تخفیف کردی جاتی ہے، من وجہ ہم امن میں ہیں کہ انفرادی نماز ہم مکمل ارکان کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں، لیکن اجتماع کی صورت میں ہم متحقق خوف میں ہیں، جس بنا پر باجماعت نماز کی پابندی ساقط ہوجاتی ہے
05۔ لہسن کی بدبو کی اذیت بہت معمولی ہے، مگر شریعت نے کہا
لایقربن مصلانا،،، لایؤذینا
گویا اس پر نماز باجماعت میں حاضری پر پابندی لگادی، یہاں چونکہ سب ہی امکانی طور پر جان لیوا، موذی مرض کے کیرئیر ہیں، اس لیےسب پر پابندی لگائی جا سکتی ہے
06۔ باجماعت نماز، مسجد سے محبت بہت قابل قدر ہے، اور لائق تحسین لیکن شوق عبادت میں کسی کی جان کے لیے خطرہ بننا جائز نہیں، کیونکہ ارشاد ہے
لاضرر ولاضرار،
نہ خود نقصان اٹھاؤ، نہ کسی اور کو ضرر پہنچاؤ،
ویسے بھی پابندی کے باوجود نماز باجماعت مجبوری کے تحت گھر میں بھی ادا کی جا سکتی ہے
07۔ لاک ڈاؤن کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا، صورتحال کی نزاکت کو دیکھ کر ہماری حکومت نے کڑوا گھونٹ بھرا ہے، نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس، فوج کی طلبی، متعدد سینٹرز کی قرنطینہ میں تبدیلی صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے.
08۔ سابقہ دور میں متعدی امراض میں مبتلا مریض محدود تھے اور دیانتدار تھے، ان کے لیے نبوی حکمنامہ ہی کافی تھا،اس کے باوجود فقہاء نے جذامی کا مسجد میں آنا منع لکھا ہے، نہ رکے تو جبرا روکنے کی اجازت بھی دی ہے، جبکہ فی الوقت کرونا وائرس کے مریض زیادہ ہیں اور مرض کا پھیلاؤ معلوم انسانی تاریخ کا تیز ترین ہے اور بہت سے لوگوں کے لیے جان لیوا بھی ، اور مریض ایسے کہ ہسپتال اور قرنطینہ سے بھی فرار ہونے والے، اور معاشرہ ایسا کہ ذمہ دارانہ رویہ سے عاری
اس صورت میں حکومت بیچاری پابندی نہ لگائے تو کیا کرے.عوام الناس پر پابندی کی حد تک
حکومت کا بھر پور ساتھ دینا چاہیے
09۔ یہاں سے اجتماع کے مضر اثرات کا اندازہ کیجیے کہ نماز جنازہ میں صرف قریبی رشتہ داروں کو شامل ہونے کا کہا گیا ہے ،
10۔ نماز پنجگانہ اور جمعہ کے لیے اذان بلند ہوتی رہے، مسجد کے عملے کو محدود تعداد میں حفاظتی تدابیر کو بروئے کار لاتے، نماز باجماعت کی اجازت نماز باجماعت کی اجازت ہو.تاکہ شعار اسلام بھی کسی نہ کسی سطح پر برقرار رہے، تو یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہے
11۔ یہ چونکہ ایک اجتہادی نوازل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے اور ہماری حکومت باجماعت نماز پر پابندی کی رائے رکھنے والے علماء کے مطابق انتظامی فیصلہ کرچکی ہے، ہمیں اس کی تائید کرنی چاہیے، قضاء الحاکم یقضی علی الخلاف
12۔ جہاں تک باقی اداروں کے کھلے رہنے کا استثناء ہے، یہ ایک دنیاوی نوعیت کی مجبوری ہے جس کے بغیر دنیاوی معاملات چل نہیں سکتے، ان کو دلیل بنا کر مساجد اوپن رکھنے کا مطالبہ اس لیے درست نہیں کہ دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے تعامل کیے بغیر کاروبار حیات چل ہی نہیں سکتا، اور ان میں بھی واپڈا، سوئی گیس، ہسپتال، بنک، گراسری جیسے مقامات کو اوپن رکھنے کی اجازت دی گئی ہے،
مسجد کا معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ وہ بندوں اور ان کے رب کا معاملہ ہے، وہ قریب مجیب ہے، اس نے خود ہی بہت آسانیاں رکھی ہیں، ہم شدید حالت جنگ میں ہیں، اور یہ بائیولوجیکل وار ہے، لاکھوں افراد خفیہ بائیولوجیکل ویپن اٹھائے پھر رہے ہیں، اس رحیم وکریم ذات نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسی ہستیوں کو بھی شدید حالت خوف میں فرجالا أو رکبانا، کہ کر پیدل اور سوار بھی نماز کی اجازت دی ہے.
13۔ جہاں تک یہ اعتراض ہے کہ لوگ گھوم پھر رہے ہیں، یہ بھی بالکل بے بنیاد ہے، بے شعور افراد کی کوتاہیوں پر تو مساجد کو اصلاحی کردار ادا کرنا چاہیے، نہ یہ کہ ان کو دلیل بنا کر مزید بے احتیاطی کے روئیے کو پروموٹ کیا جائے.
14۔ بارش کے عذر میں ألا صلوا فی الرحال کہنا حکم نبوی ہے، بلکہ جمعہ کے لیے کہنا بھی ثابت ہے، وہاں علت یہ کہ لوگ کیچڑ اور بارش سے تکلیف نہ اٹھائیں اور یہاں تو امکانی کیرئیر کی وجہ خطرہ اس سے بھی شدید ہے، بعض علماء فرماتے ہیں کہ بارش اور کیچڑ کی علت یقینی ہے اور کیرئیر والی علت وہم پر مبنی ہے، میں بھی پہلے ایسے ہی سمجھتا تھا، لیکن دنیا بھر کے مسلم وغیر مسلم اطباء اجتماع کو شدید مضر اور تباہ کن بتانے پر متفق ہیں ، اور ظاہری اسباب کی دنیا میں یہ اجتماع بہرحال مضر ہے، چاہے صحتمند افراد کا ہی کیوں نہ ہو اور عبادت کے لیے ہی کیوں نہ ہو، اس لیے یہ ضرر بارش ہی کی طرح متحقق ہے اور اس کی تکلیف بارش سے کہیں زیادہ ہے، جب بارش میں معمولی تکلیف کی بنا پر ألا صلوا کہ کر نماز سے رخصت دی گئی ہے، تو یہاں بالأولی یہ رخصت ہے.
15۔ بعض اہل علم کہتے ہیں انفرادی رخصت اور اجتماعی پابندی میں فرق ہے، بارش میں انفرادی رخصت ہوتی ہے اور جو آنا چاہے اسے اجازت بھی تو ہوتی ہے، مجھے بھی یہ اشکال درپیش رہا، لیکن یہ اشکال کافی کمزور ہے،کیونکہ بارش میں ہر شخص انفرادی طور پر تکلیف اٹھاتا ہے، رخصت بھی انفرادی، بارش کے دوران مسجد میں اجتماع سے کسی دوسرے کو نقصان نہیں ہوتا، لیکن کرونا وائرس کی وبا میں انفرادی رخصت برقرار رکھنے سے ایک ایسا اجتماع منعقد ہوتا ہے جو پوری سوسائٹی کے لیے طب کی دنیا میں یقینی طور پر نقصان دہ ہے.
16۔ بعض اہل علم کہتے ہیں یہ توکل کے منافی ہے، لا عدوی ولا طیرۃ، ان سے باادب گزارش ہے کہ فقہی احکام میں ظاہری صورتحال کو دیکھ کر مسئلہ بتایا جاتا ہے، ایمانی کیفیت پر فتوی نہیں دیاجاتا، وہ انفرادی تقوی کا لیول ہوتا ہے،
17۔ مشکل کی اس گھڑی میں اگر ہم اس نازلہ میں صحیح فیصلہ نہ کرسکے تو وبا کے پھیلاؤ اور انسانی جانوں کے ضیاع میں ہمارا بھی ایک کردار ہوگا، جس کی اخروی جواب دہی سے ڈر لگتا ہے اور دنیا میں جگ ہنسائی سے بھی،
18۔ پابندی کے خلاف رائے رکھنے والے اہل علم کے پاس مضبوط ترین دلیل، یہ آیت مبارکہ ہے
ومن أظلم ممن منع مساجد اللہ…. یقینا یہ آیت ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو مساجد سے روکے، میں بھی اس آیت مبارکہ سے استدلال کرتا رہا ہوں، لیکن یہ استدلال اس لیے نامناسب ہے کہ
1.آیت مبارکہ میں مساجد سے روکنے والے کو ظالم ترین کہا گیا ہے، لیکن موجودہ صورتحال میں مساجد میں ذکر الہی سے نہیں روکا جا رہا کیونکہ ذکر الہی بلند کرنے اور اذان کہنے کی بدستور اجازت ہے، بلکہ مسجد کے عملے کو بھی اجازت ہے، اس لیے ذکر الہی اور نماز تو جاری ہے
،2.. بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ خراب معنوی ہے، لیکن حقیقت میں یہ خراب معنوی اس لیے نہیں کہ مؤذن بدستور اذان بلند کرکے اسے آباد کیے ہوئے، صرف اجتماع سے روکا گیا ہے
وہ روکنا بھی ظلم ہی ہوتا اگر اس کے پیچھے عناد اور برے مقاصد ہوتے، چونکہ یہ روکنا خود نمازیوں کی حفاظتی تدبیر اور سوسائٹی میں وبا کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہے، اس لیے ان حالات میں روکنا اس آیت مبارکہ کا مصداق نہیں ہے.
19۔ صدر مملکت، ہائی کمانڈ اور انتظامیہ کا بار بارعوام الناس اور علماء کے ترلے کرنا، ان کے سامنے ہاتھ جوڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مخلص ہیں اور مجبور بھی، ہمیں اس مجبوری میں انسانیت کو بچانے کے لیے ان کا ساتھ دینا چاہیے
. وتعاونوا علی البر والتقوى
. أدوا الذی علیکم
. من أحیاہا فکأنما أحیا الناس جمیعا.
20۔ آئیے لاک ڈاؤن کو پورے شرح صدر سے قبول کرتے ہوئے، ان احادیث پر عمل کیجیے
طاعون کے دوران ثواب کی نیت سے گھر میں رہنے والے کو شہید کے برابر اجر ملتا ہے، بشرطیکہ وہ یہ یقین رکھے، مجھے صرف وہی تکلیف پہنچے گی جو اللہ تعالیٰ نے لکھی ہے
(مسند احمد، 26139)
نیز فرمایا
اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھو، گھر میں رہو اور اپنے گناہوں پر روتے رہو.
دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے، درست راہ دکھائے، امت کو اس وبا سے نجات اور مریضوں کو شفا عطا فرمائے اور اس وبا کے شر وہ مہربان امت کے لیے کوئی خیر پیدا فرمائے. آمین
میرے پیارے مشایخ کو کوئی ادنی تکلیف پہنچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں، میرے لیے سب اہل علم آنکھوں کے تارے ہیں اور میرے دل کے باسی
بارک اللہ فیکم.
ہمدردانہ غور ضرور کیجیے گا، یہ میری ذاتی رائے ہے، نہ فتوی ہے، نہ ہی میں مفتی ہوں.