ادھر سونیا نے الریاض نور کی بتائی ہوئی جگہ پر جانے کی تیاری کر لی تھی وہ لوگ بس نکلنے والے تھے۔ مشاری ویسے تو شلوار قمیض جمعہ کے جمعہ پہنا کرتا تھامگر آج وہی کُرتا شلوار پہن کر تیار کھڑا تھا۔وہ جانتا تھا آج سفر لمبا ہوجائے گا۔ مگر آج صبر کرنا مشکل تھا۔ سونیا کی آواز پر وہ چونکا اپنے خیالات سے باہر آیا اور منزل جو شاید اسکو ملنے والی تھی اس پر روانہ ہوگیا۔
آپی چلیں دیر ہورہی ہے نور نے صبح سے شور مچایا ہوا تھا۔ “ہاں میں اپنا حجاب پہن لوں پھرچلتے ہیں۔ آپی جلدی کریں ناں ؛ بہت وقت لگا رہی ہیں آپ۔ “کیا ہوگیا ہے نور کس نے ملنے جارہی ہو جو اتنی بےصبری کا مظاہرہ کررہی ہو بس دو منٹ دو مجھے ہوگیا بس۔۔ چلیں۔۔۔ نور آویزہ کا بازو پکڑ کر اسکو باہر ہال میں لے آئی۔
امی ہم تھوڑی دیر تک آجائیں گے آپ انتظار مت کرنا اور پریشان بھی نا ہونا ۔ “اچھا خیر سے جاو اور دھیانسے چلانا کار۔ اوکے امی۔ اللہ حافظ۔۔
باتیں کرتےنور نے المساء کیفے کے سامنے کار روک دی۔ چلیں آپی آگئی منزل۔ آویزہ نے ہنس کر نور کو دیکھا اچھا شکر ہے کہ منزل آگئی۔ چلو اب اترو۔ سونیا کی گاڑی الریاض میں داخل ہوگئی تھی المساء کیفے کا پتہ اپنے گوگل پلس جی پی آر پر ڈالتے وہ بتائے ہوئے راستے پر چل پڑے اور ٹھیک دس منٹ بعد وہ اس جگہ پہنچ گئے۔
چلو مشاری تمہاری منزل آگئی ۔ سونیا نے بریک پر پاوں رکھتے کہا ۔ “تم نہیں آرہی اندر؟؟ مشاری نے پلٹ کر پوچھا۔ “نہیں تم جاؤ۔۔مجھے ساتھ دیکھ کر شاید کوئی مسلہ بن جائے۔ (وہ تحمل سے بولی)”۔
“نہیں ہوتا کچھ بھی تم ساتھ آؤ میں ایسے کیسے تمکو باہر چھوڑ کر چلا جاوں وہ فکرمندی سے گویا ہوا”۔ مشاری!! “سونیا تم آرہی ہو سونیا اترو بس جلدی سے۔ اوکے چلو۔ وہ اتر کر اس کے برابر چلتی اندر داخل ہوگئی۔ (سونیا اور مشاری دونوں نے نور کو دیکھا تھا اس سے ملے تھے اور نور بھی دونوں کو جانتی تھی سو دیر نا لگی ایک دوسرے کو پہچاننے میں)۔
مشاری کو دیکھ کر نور کھڑی ہوگئی۔ آگئے وہ لوگ۔ “آویزہ نے جوں ہی پلٹ کر دیکھا چہرے کے رنگ اڑ گئے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے وہ اپنی جگہ ہر برف ہوگئی ۔ نور یہ تم۔۔۔۔”۔ آپی یہ ہیں مشہور رائٹر ‘مشاری احمد واصف’ انکی کتاب واپس کرنا تھی سوچا آپ کو بھی ساتھ لےآؤں۔ (وہ ہنس کر بولی)۔
مشاری بھائی ” نور نے ہاتھ کے اشارے سے انکو اپنی طرف بلایا تھا۔ مشاری آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا جیسے اس ٹیبل کی طرف بڑھ رہا تھا آویزہ کی حالت غیر ہورہی تھی۔ (پاس آکر اس نے شائستہ انداز میں سلام کیا) اسلام علیکم !
وعلیکم السلام نور نے مسکراہٹ سے جواب دیا۔ آویزہ کے پیچھے کھڑا وہ شخص کتنا متاثر کن سحر انگیز گفتار کا مالک تھا۔ اسکو آج یہ پتہ چلا تھا کہ دنیا سچ کہتی ہے۔
“آئیں بھائی بیٹھیں ؛ نور نے دعوت دی۔ آویزہ اس ساری گفتگو میں بلکل جمی ہوئی برف کی طرح نا ہل سکی نا کچھ بول سکی بس وہ ٹیبل پر نظریں جمائے بیٹھی رہی۔ “نور کے بار بار اسرار پر وہ آویزہ کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اس نے ابھی تک نظریں اٹھا کر آویزہ کو نہیں دیکھا تھا”۔
جبکہ آویزہ اب اسکو برابر دیکھ رہی تھی “مشاری کا چہرہ ابھی بھی بچوں کی طرح معصوم سا تھا ، آنکھیں بڑی گہری۔ “ہلکی سی داڑھی جو اسکو اور بھی سنجیدہ بنا رہی تھی ، ہاتھ پر لگی سوئی ابھی بھی وہاں تھی”۔ آویزہ سے مشکل ہوگیا اس کے روبرو بیٹھنا وہ بھاگنا چاہتی تھی۔ مگر جا نا سکی۔
” بھائی آپ کیا لیں گے چائے یا کافی ؟ نور نے پوچھا!
اس پل مشاری نے حجاب میں بیٹھی آویزہ کو دیکھا تھا نگاہیں نگاہوں سے اب ٹکرائی تھی وہ اس سے سراپے کے سحرمیں مدت سے تھا اسکو دیکھنا نا دیکھنا ایک سا تھا وہ ہر پل تو اس کے ساتھ ہوتی تھی ۔ بہت شکریہ بیٹا ! مگر میں چائے نہیں پیتا ۔(اس نے مدھم سا کہا)۔ اوکے میں کچھ اور لےکر اتی ہوں نور سونیا کے ساتھ ملی اور چلی گئی ۔ سونیا بھی اس کے ہمراہ تھی۔
مشاری چپ چاپ سا نظریں جھکا کر بیٹھا رہا (آویزہ کو تھا وہ کوئی بات کرئے گا مگر خاموش تھا وہ بلکل خاموش)۔ یہ پہلی بار تھا آویزہ کو خاموشی سے وحشت ہوئی۔ اس نے مشاری کو دیکھا اور پھر پوچھ ہی لیا۔
چائے کب چھوڑی؟ آویزہ کی آواز کی لرزش سے وہ خوب واقف تھا۔ “کافی عرصہ بیت گیا چائے چھوڑے ہوئے”۔
تم کیسی ہو؟ میرا مطلب آپ کیسی ہو؟ مشاری تھوڑا اٹک کر بولا۔ آویزہ کو اپنا آپ ٹکڑے ہوتے محسوس ہوا ۔
ٹھیک ہوں ۔۔ اور تم ؟ میں بھی ٹھیک” مشاری نے اسی جھکی نگاہ سے کہا۔ تمہاری فیملی کیسی ہے؟بچے شوہر؟ مشاری نے تلخ ہوتے دل کو دبا کر پوچھ ہی لیا۔
اتنے میں نور آگئی۔ ” آپی نے بھی آپکی طرح شادی ہی نہیں کی پتہ نہیں کس کا انتظار ہے وہ ہنس کر بولی”۔ مشاری کی دنیا اس پل میں مہک اٹھی اس نے اس بار چہرہ اوپر کرتے آویزہ کی آنکھوں میں دیکھا جو بلکل سامنے بیٹھی تھی۔ کیا ؟ وہ حسرت و حیرت کے درمیان تھا ۔ہاں ناں ۔ آپی بھی بلکل آپ کی طرح ہیں۔ وہ آپکی بک آپی نے ایک رات میں پڑھ لی اور پھر پتہ نہیں کیا کیا لکھتی رہی “نور تو ہر بات ست پردا اٹھا رہی تھی ۔ جبکہ مشاری اور آویزہ دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔
“اتنی واقفیت جان پہچان کے بعد انجان ہونا آسان کام تو نہیں ہے کتنا درر ناک لمحہ ہوتا ہے جب آپ کسی شخص کو جانتے ہوئے بھی کھل کر مخاطب ناکر سکوں”۔ “نور مجھے دیر ہورہی ہے کام ہے جانا ہے ۔ میں کار میں تمہارا انتظار کررہی ہوں آجانا۔ آویزہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔
آویزہ کے جاتے ہی نور نے مشاری کو سب بتادیاکس طرح آویزہ کی منگنئ ٹوٹی کس طرح وہ آج بھی صرف مشاری سے پیار کرتی ہے۔ ساتھ ہی اپنی امی کا نمبر بھی کہا رشتہ بھیج دو ورنہ آپی خود کبھی تسلم نہیں کرئےگی وہ کتنا چاہتی ہے آپکو مشاری بھائی ۔۔ نور کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔ مشاری کے چہرے پر سکون تھا ایک گہرا سکون جو آج سے پہلے کبھی نا تھا اس نے وہاں بیٹھے ہی خانم کو کال کی اور سب بتا دیا ۔ اپنے بیٹے کو خوش دیکھ خانم بے تحاشہ خوش ہوئی خدا کا شکرکیا اور نوافل پڑھنے لگ گئی۔
مشاری ____ مشاری؟؟ وہ کب سے اسے آوازیں دے رہی تھی مگر وہ کام میں بلکل گم تھا۔ پاس کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے اپنے ہونے کا احساس دلاتی آویزہ نے مصنوعی غصے سے مشاری پر ایک نگاہ ڈالی۔ میں یہاں ہوں تو یہ حال ہے آپکا اور ویسے کہتے ہو مجھے ہر لمحہ تم چاہئے”۔
مشاری نے ہنس کر اپنی ڈائری بند کی آویزہ کا ہاتھ تھاما اور کھڑکی کی سمت بڑھا ” تم جانتی ہو میں روز یہاں سے تمکو دیکھا کرتا تھا تم سے باتیں کرتا تھا نیم دیوانگی کی سرحد پر تھا مس آویزہ مشاری احمد!
مشاری اتنا عرصہ بیت گیا تم بھولے نہیں مجھے؟ محبت یاداشت کا دوسرا نام ہے” آویزہ کے بالوں پر بوسہ دیتے وہ بولا”
تمہیں کس چیز نے زندہ رکھا ؟ ” انتطار نے ۔ چائے کا سپ لیتے وہ آہستہ سے کہتا ہے
تمہیں اپنے انتظار پر اتنا یقین کیوں تھا ؟” میں نے سنا تھا معجزے ہوتے ہیں ”
اور اگر ہم نا ملتے تو ؟ امید پہ دنیا قائم ہے’ چائے کا سپ لیتے مشاری نے کہا
اگر میں کہہ دوں مجھے تم سے محبت نہیں؟ میں یک طرفہ محبت پہ ایمان لے آؤں گا۔
میں اب شادی نہیں کرنا چاہتی تھی مشاری ۔ “جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں آویزہ زمین والے تو بس تلاش کرتے ہیں آج میری تلاش مکمل ہوگئی اور تم میری قسمت میں لکھی تھی میرا تو ہونا ہی تھا۔
اس دن جب کیفے میں تم مجھے چھوڑ کر گئی نور نے مجھے سب بتا دیا تھا۔ الگے دن میں نے امی کو تمہارے ہاں بھیج دیا تھا رشتہ لےکر ۔ وہ تو تمہارے ابا میری شاعری کے فین نکلے ورنہ اس بار انکار کرتے تمہیں اٹھا لانا تھا” مشاری نےہنس کر اسکو سب بتایا۔ آویزہ اسکو مسکراتا ہوا دیکھتی رہی ۔۔
“مشاری کتنے اچھے لگتے ہو یوں دل سے خوش ہوتے پتہ ہے میں نے ہر نماز میں تمہارے لیے تمہاری ترقی کےلیے دعا کی مجھے پتہ تھا تم جہاں ہوگے ٹھیک ہوگے۔ مگر تم نے شادی نہیں کی؟۔ وجہ؟ ” وہ رخ بدل کر سوال پوچھ رہی تھی۔
مشاری نے گہرا سانس لیا۔ “آویزہ میں نے تم سے کہا تھا ناں تم نہیں تو کوئی اور بھی نہیں اور کوئی اور ہو بھی کیسی سکتی تھی؟ مجھے تم سے چاہت تھی تم سے ہی وابستہ میری ہر خوشی تھی میں نے پوری عمر تمہارے انتظار کے نام کی تھی”۔
تم بتاؤ نے انکار کیوں کیا تھا؟ مشاری نے بھی اپنا سوال کیا۔ مشاری بس مجھے لگامیں تمہارے لیے درست انتخاب نہیں ہوں”۔ آویزہ تم ہی میرا سب کچھ تھی ہو اور رہوگی۔
شکر ہے مجھے نور نے سب بتا دیا تھا ورنہ میں انجان ہی رہتا اس سب سے کہ تم نے شادی نہیں کی۔ اور مجھ سے رابطہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا تم جانتی تھی میں تمہارا منتظر ہوں ۔ وہ شکایت کر رہا تھا جس پر آویزہ کو اپنے شوہر پر بےحد پیارا آیا ؛ مشاری کا ہاتھ تھام کر اس کے ساتھ چلتی آویزہ کو اپنا آپ مکمل لگا۔ “مشاری میں جانتی ہوں تم منتظر تھے مگر مجھے تھا تم اچھا انتخاب کرو مجھے یہ بھی پتہ تھا تم مجھ تک اوگے ضرور۔ پھر میں طلاق بافتہ ہوتی ہا بیوہ تم مجھ سے نکاح ضرور کرتے۔ مشاری تم نے مجھے مکمل صدق دل سے چاہا اور میں یوں حصوں میں تمکو ملتی مجھے منظور نہیں تھا ”
میں نے تم سے کہا تو تھا آویزہ ۔اپنا چاہت میں ایک ہی اصول ہے جب تو قبول ہے تیرا سب قبول ہے۔ تم بھول گئی یہ بات ؟ “نہیں مشاری احمد واصف مجھے تم لفظ لفظ یاد ہو کہو تو زبانی سنا دوں تمکو ؟؟ وہ اسکے کاندھے پر سر رکھ کر بولی۔ مجھے بھی تم حرف آخر کی طرح یاد ہو آویزہ۔۔
دروازے پر دستک ہورہی تھی ناجانے کب سے خانم ان کو بلا رہی تھی اب تو تحامی بھی اٹھ گیا تھا اور وہ رو رہا تھا آویزہ نے مشاری کے کاندھے سے سر اٹھایا اور بھاگ کر باہر ہال کی طرف بڑھی۔ مشاری احمد واصف کی کہانی اب مکمل ہوگئی تھی۔ اسکی کتاب “پھرے دربدر” مترجم ہونے کے بعد بھی کافی مشہور ہوئی اسکو بہترین لکھاری کا ایوارڈ بھی ملا اور زندگی نے اس پر مہربانی کی خدا نے ساتھ دیا اور وہ تلاش جو دربدر کی تھی آخر کو منزل پا ہی گئی۔ آویزہ سے نکاح کے بعد وہ لوگ پاکستان آگئے تھے مشاری کو گورنمنٹ کالج میں بطور پروفیسر جاب مل گئی آویزہ نے بھی جاب شروع کرلی۔ خانم کا خاندان مکمل ہوگیا اب وہ سارا دن اپنے پوتے تحامی کے ساتھ اپنا وقت گزرا کرتی۔ نور اعلی تعلیم کےلیے یورپ چلی گئی تھی اور سونیا نے اپنے پرانے دوست سے شادی کرلی جو سعودیہ میں اسی ہسپتال میں کام کرتا تھا جہاں سونیا۔ ہر ایک کو اپنی منزل مل گئی تھی۔
“ہر رشتہ اللہ نے بنا کر بھیجا ہے بس اسکی تلاش کا کام ہم پر چھوڑا؛ صدق دل اپنے حق کا مانگو جو تمہارا ہے وہ تمکو آ ملے گا”۔
“پھرے دربدر تیری چاہ لیے۔ از سماء چوہدری (آخری قسط)” ایک تبصرہ