پھرے دربدر تیری چاہ لیے۔ از سماء چوہدری (قسط3)‎

مشاری خیر تو ہے؟ آج پہلی بار تم خود چل کر کسی لڑکی سے بات کررہے ہو سونیا اسکی ہی باتیں اسکو بتا رہی تھی وہ ہنس دیا سونیا وہ میری چھوٹی جیسی ہے مجھے اپنی سی لگی جیسے میں اسکو جانتا ہوں۔ ملا ہوں پہلے اسکا نام اسکی باتیں مجھے اپنی سی لگی سونیا۔

ہممم! مشاری کیا تم نے آویزہ سے دوبارہ بات نہیں کی؟ تمکو آن لائن اسکو تلاش کرنا چاہیے وہ شاید تمکو مل جائے ۔ میں نے اسکو کھویا کب ہے سونیا ؟ میرا دل کہہ رہا ہے اس نے مجھے دیکھا ہے۔ وہ جانتی ہے میں اس کے شہر میں ہوں۔ اسکا شہر؟ سونیا کا منہ کھلا رہ گیا مگر وہ تو عمان سے ہے مشاری ۔ نہیں وہ لوگ کافی عرصہ پہلے ادھر شفٹ ہوگئے تھے۔

مشاری تم نے بتایا تھا آویزہ کی ایک چھوٹی بہن بھی ہے۔ ہے ناں؟ سونیا اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آئی۔ ہاں اسکا نام ۔۔ مشاری کہتے رک گیا؛ اسکی نظریں سونیا سے ٹکرائی وہ جو سمجھ رہا تھا سونیا نے ہنس کرکہا۔ ” مشاری بھاگو۔۔ ”

آویزہ کب سے نور کا انتظار کر رہی تھی صبح 8 سے شام کے پانچ ہوگئے اور وہ انتظار کی گھڑی جو لمبی ہوتی جارہی۔ اس سے مزید صبر نہیں ہوا تو کال کرلی۔ مگر اگلے ہی پل دروازے پر دستک ہوئی آویزہ نے بھاگ کر دروازہ کھولا ۔

تم اتنا لیٹ ہوگئی نور میں کب سے انتظار کررہی ہوں۔ کیسا رہا؟ تم نے بات کی مشاری سے؟ وہ کیسا تھا؟ (آویزہ کی زبان پھسل گئی مگر جلد ہی اپنی حالت پر قابو پاگئی) میرا مطلب بات چیت ہوئی کیسا تھا؟

او آپی سانس تو لیں ۔ نور قدم بڑھاتی اب ہال میں آگئی اور آویزہ پیچھے پیچھے آتی اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ کچھ تو بتاؤ نور۔ (آویزہ نے زچ کر کہا)۔ آپی مجھے لگا وہ مجھے جانتے تھے۔ پتہ نہیں پر مجھے اپنا پن لگا جانتی ہیں وہ جب سٹیج پر آئے تو میرے پاس رک گئے مجھ سے حال پوچھا میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ مجھے بیٹا بھی کہا۔

“آویزہ کا لہجہ تر ہونے لگا۔ اور کیا کہا؟؟ (وہ جانتی تھی مشاری نور کو پہچان لےگا) نور نے ساری باتیں بتاتے آخر میں کتاب نکال کر سامنے رکھ دی ۔ آویزہ نے جھٹ نے وہ اٹھی اور صفحے پلٹنے لگی کتاب میں رکھا کارڈ زمین پر گر گیا۔ “آپی جب ہال خالی ہو رہا تھا تو مشاری بھائی نے مجھے آواز دی یہ کتاب دی اپنا کارڈ دیا اور کہا پڑھ کر مجھے واپس کر دینا پھر کہا آپ مجھے “سر” نہیں بھائی کہہ سکتی ہو؟ کوئی اتنا اچھا کیسے ہوسکتا ہے لڑکیاں مر رہی تھی ان سے بات کرنے کو اور وہ خود چل کر دو بار میرے پاس آئے تھے مجھ سے بات کی” بہت ذبردست شخصیت ہے انکی آپی بلکل سادہ۔ جانتی ہیں وہ کسی لڑکی سے پیار کرتے تھے بلکہ کرتے ہیں (نور ہنس کر رشک سے بولی) انہوں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔

آویزہ سے مشکل ہوگیا خود کو روکنا سو بنا نور کی بات سننے وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ باتھ میں خود بند کر اتنا روئی کہ چھ سال کا غم چھ منٹ میں بھر آیا۔ خود کو ملامت کرتی آویزہ خود سے کہہ رہی تھی۔ “مشاری تم نے میرے پیچھے اپنی زندگی تباہ کردی کیا کیا سنا ہوگا تم نے کس کس حالات سے۔۔ کیوں مشاری تم نے کیوں اتنی صدق دل سے اس نقاب محبت کو نبھایا کیوں ؟۔ (سوال پر سوال تھے مگر جواب دینے والا کوئی نہیں)۔

مشاری بھاگتا ہوا ہال سے نکلا چاروں طرف دیکھا مگر نور جاچکی تھی۔ تصدیق پھر ادھوری رہ گئی وہ وہاں ہی بیٹھ گیا۔ “اک ہوتا ہے قمست میں نا ہونا صبر آجاتا ہے کہ نہیں ملنا وہ میرے لیے ہے ہی نہیں ایک ہوتا ہے اپنے ہاتھوں سے جاتا دیکھنا آنکھوں کے سامنے سے گرزتا دیکھنا اسکی جو تکلیف ہوتی ہے ناں وہ شاید الفاظ میں بیان نا ہوسکے”۔

شام کب رات میں بدل گئی کچھ پتہ ہی نا چلا۔ “محبوب کی چَوکھٹ سے خالی ہاتھ پلٹنا بھی اذیتِ عظیم ہے”۔ واپسی کی طرف گامزن گاڑیوں میں ایک کار مشاری احمد واصف کی بھی تھی جو نادام سا سر جھکائے اپنی ڈائری کے صفحے پلٹ رہا تھا۔ شاید آج کا سفر بھی قلم بند کر رہا تھا۔ ایک گھنٹے تیس منٹ کا سفر ناجانے کیوں بہت طویل ہوگیا تھا اور یوں بیٹھے رہنا مشکل سے مشکل۔

کمرے میں تاریکی چھائی ہوئی تھی ہر سوں خاموشی نے اپنا راج بچھایا ہوا تھا وہ اپنے بستر پر موبائل کی مدھم سی روشنی کیے کچھ پڑھنے کی کوشش کررہی تھی پاس ٹیبل جس پر بہت سے کاغذ رکھے تھے ان پر چند اور کتابیں بکھیری ہوئی اپنا وجود نہاں کیے ہوئے تھے۔ اس خاموشی میں اب سسکیوں کی آواز شامل ہوگئی تھی جو ایک الم ناک کیفیت میں داخل ہوگئی۔ ماحول میں جہاں ہلکی پھلکی سرد ہوا کی لہر داخل تھی وہاں من کے اندر آگ کا دریا بہہ رہا تھا۔ آویزہ گود میں کتاب کو لیے بڑے پیار سے اس کے ہر لفظ کو چھو رہی تھی۔ محسوس کررہی تھی وہ سب لائیز جن پر مشاری نے نشانات لگائے تھے وہ انکو بار بار دیکھ رہی تھی۔ ہر لفظ میں وہ خود کو پا رہی تھی مشاری کی آنکھوں سے خود کو دیکھ رہی تھی۔ “کتنا مکمل لکھا ہے تم نے مشاری بنا مجھے دیکھے میرے ہر مزاج سے باخبر رہے میری ہر سوچ کو جانتے ہوئے میرےتخیل کو لکھتے رہے تم نے کیسے کر لیا ۔

“میرے شہر میں ہو مجھے ڈھونڈ رہے ہو اور مجھ تک پہنچ بھی گئے مگر میں مشاری! تم سے کیسے ملوں۔ مجھ میں ہمت نہیں تمہارا سامنا کروں تم سے کچھ کہوں اور ہم ملے بھی تو کیا بات کریں گے مشاری”۔ (وہ خود کلامی کرتے ہنس پڑی)۔ یوں ہی پڑھتے پڑھتے کب اسکی آنکھ لگ گئی اور کب رات گزری کب دن ہوا اسے خبر نا ہوئی۔

اسلام علیکم امی ! کیسی ہیں آپ ؟ وعلیکم السلام ۔ میں ٹھیک ہوں مشاری بس تم بہت یاد آتے ہو واپس آجاو گھر بہت خالی سا ہوگیا ہے۔ امی ! بس ایک ہفتے کی بات ہے میں واپس آجاوں گا۔ کتاب پریس کلب میں ہے کل وہ شائع ہوجانی تو میں آجاوں گا پاکستان ویسے بھی میرا دل بہت الجھا سا ہے”
مشاری؛ کیا آویزہ ملی۔۔؟؟ “خانم نے ہولے سے پوچھا تھا وہ بیٹے کی بوجھل روح سے واقف ہوگئی تھی۔ “امی میں کونسا اسکی تلاش میں آیا تھا۔ “ملتے تو وہ ہیں جو کھو جاتے ہیں خود سے گئے ہوئے اور بخت سے نکالے ہوئے کب واپس ملتے ہیں ؟ میری قمست میں سکون نہیں تو جب تک سانس ہے یہ دربدری قائم رہے گی” وہ ناچاہتے تلخ حقائق کہہ گیا۔ مشاری!! بس واپس آجاومیرے پاس”۔ خانم نے روتے ہوئے فون بند کردیا اور نیم نڈھال بستر پر پڑا سوچتا رہا اب آگے کیا؟۔

نور صبح جلدی اٹھ گئی تھی، اپنےبستر کو درست کرتے وہ بار بار آویزہ کو دیکھ رہی تھی جو ابھی تک سوئی ہوئی تھی بیڈ سے سر لگائے نیند کی دیوی کب اس پر مہربان ہوئی اور وہ اسی حالت میں سوگئی تھی ۔ آج پہلی بار تھا کہ وہ ابھی تک نہیں اٹھی نور کو تھوڑی پریشانی ہوئی اس نے پاس جاکر چادر درست کرنا چاہی تو کتاب گود سے بستر پر گر پڑی۔۔ بہت سے کاغذ جو آویزہ نے رات کی سیاہی سے کالے کیے وہ بکھیرے نظر آئے نور نے ان میں چند ایک اٹھا لیے ۔۔ کتاب واپس گود میں رکھ کر وہ الٹے قدموں کمرے سے نکل گئی۔ وہ حیرت زدہ تھی آخر کیا کیوں ؟ بنا ناشتے کیے وہ جتنا جلدی ہوا نور یونیورسٹی کو نکل گئی مگر وہ گھر کے پاس بنی اس لائبریری میں ان کاغذات کا مطالعہ کررہی تھی جو اسکو اپنی بہن کے بستر سے ملے کچھ شک و شبہ تو اسکو اسی پل تھا باقی جیسے جیسے وہ پرچے پلٹتی گئی باتیں پر پڑی دھند ختم ہوتی گئی۔
“مشاری احمد واصف جس لڑکی کےلیے پاگل ہے جس کی محبت میں آج تک وہ دربدر گھوم رہا وہ کوئی اور نہیں میری آپی آویزہ اعجازی گفام ہے؟؟ “نور کی آنکھوں سے حیرت اور چند قطرے پانی ان پرچوں پر گرا اور ہجر کا لفظ اب دھندلا ہوگیا۔

اس نے جلدی نے اپنا فون نکلا اور ایک نمبر ملایا کان کو لگائے وہ حواس باختہ بس دوسری طرف سے آواز کی منتظر تھی۔ اسلام علیکم! اس نے ہمت جمع کرتے کہا ۔
وعلیکم السلام ۔ آپ کون ؟؟ “میں نور ۔۔ جسکو آپ نے کتاب دی تھی؟ وہ یاد دلاتے بولی۔
‘مشاری ااپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ آپ؟ بیٹا کیسی ہو؟ ” ٹھیک ہوں اور آپ؟ وہ زرا سنبھل کر بولی۔
“میں بھی ٹھیک ہوں ۔آپ سنائیں سب خیریت؟ اتنی جلدی بک پڑھ بھی لی وہ تھوڑا مسکرا کر بولا”
” ہاں جی! پڑھ لی اور بہت کچھ صاف صاف نظر آنےلگا۔ مشاری بھائی کیا ہم مل سکتے ہیں ؟ نور نے مطلب کی بات کی۔
” نور میری پرسوں واپسی ہے اور آج پریس کانفرنس، میں الریاض واپس نہیں آسکتا وہ کتاب آپ رکھ لو بیٹا”
“مشاری بھائی جس تلاش میں آپ مارے مارے پھر رہے ہو کیا اسکو ملنے بھی نہیں آوگے؟ کیا اتنا پاس آکر پھر دور ہوجاوگے؟ (نور کیا کہہ رہی تھی وہ جان کر انجان تھا) آپکو ایڈریس میسج کررہی ہوں کل آپکا انتظار کریں گے ” ہم ” ۔۔۔۔ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا تھا۔

مشاری کو سمجھ نہیں آئی وہ خوش ہو یا رنجیدہ وہ مسکرائے یا واپس چیخ چیخ کر روئے وہ بس سجدے میں کی حالت میں تھا۔ اسکی کیفیت بہت عجیب ہورہی تھی۔ “اچانک کی ملی بےپناہ خوشیاں بھی موت کا سبب بن جاتی ہیں” مشاری کا بی پی شوٹ کر گیا تھا اسے جس ہپستال میں منتقل کیاگیا تھا سونیا وہاں کی سنیئر ڈاکٹر تھی اور مشاری کی اچھی دوست۔ اسکی حالت غیر ہوتے دیکھ سونیا نے پاکستان خانم کو کال کردی تھی۔ آج شام وہ سعودیہ پہنچنے والی تھی۔

اسکی دھڑکن کی رفتار تیز سے تیز ہوتی جارہی تھی۔ دوائی کا کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔مشاری کو ای سی یو(ICU) میں شفٹ کردیا تھا سونیا ہر لمحہ ادھر تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھی ہوا کیا ہے۔ ادھر میڈیا میں یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔

آویزہ گھر کی صاف ستھرائی میں مصروف تھی، کچن میں پڑے ناشتے کے برتن سیمٹ کر وہ ابھی گلاس اٹھا رہی جب ٹی وی پر چلتی بریکنگ نیوز نے اسکی توجہ کھینچی۔ “ذریعے سے پتہ چلا ہے ۔ مشاري احمد واصف کو ہسپتال میں منتقل کیاگیا ہے۔ آج صبح ان کا بلڈ پریشر شوٹ کرگیا”۔۔ آویزہ کے ہاتھ سے گلاس گرا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ وہ سہمی سی بس دعائیں مانگ رہی تھی اس شخص کےلیے جو نا ہوتے بھی اسکا سب کچھ تھا۔ وہ مہبوت سی ہر منظر سے کنارا کیے بس اسی کی صحت کے لیے دعا کررہے تھی۔

نور نے دروازہ بند کیا تو سامنے آویزہ کو پایا جو جاےنماز بچھائے بیٹھی دعا مانگ رہی تھی۔ نور اس سارے معاملے سے باخبر تھی سو خاموش تماشائی بنی باتھ میں چلی گئی کپڑے تبدیل کیے اور سکون سے واپس آکر بستر پر بیٹھ گئی۔ “آپی کیا ہوا آپ تب سے جاے نماز پر بیٹھی ہیں رو رہی ہیں سب ٹھیک ہے ناں؟۔ “ہاں سب ٹھیک ہے ‘ آویزہ نے اپنی آنکھیں صاف کی چھٹ سے جائے نماز رکھا اور اٹھ کر باہر چلی گئی۔

“ان دونوں کا کچھ نہیں ہوسکتا مجھے ہی اب کچھ کرنا ہوگا کل کسی بہانے سے آپی کو باہر لےجانا ہوگا مشاری بھائی آرہے ہیں آپس میں بات کریں گے تو سب ٹھیک ہوجانا۔ نور نے کہہ کر لمبی تان لی۔

سونیا مجھے جانا ہے۔ وہ بے چینی سے اٹھا تھا مگر ہاتھ پر لگی سوئی سے تکلیف کا احساس ہوا تو واپس لیٹ گیا۔ “مشاری تم ابھی نہیں جاسکتے۔ تمہارا بلڈ پریشر نارمل نہیں ہے اور اس حالت میں تم نہیں سفر کرسکتے۔ سونیا مجھے نور سے ملنا ہے میرا جانا بہت ضروری ہے تم سمجھ رہی ہو میری بات؟ ؟ وہ اپنی بات پر زور ڈالتے بولا۔

ہممم مگر مشاری تم۔۔ اچھا ٹھیک ہے؛ تم میرے ساتھ جاوگے خود نہیں جاوگے اس شرط پر میں لےجاوں گی ورنہ اسی بستر پر رہو ایک دن اور اور آج آنٹی آرہی ہیں میری ان سے بات ہوئی تھی تمہاری حالت کا دیکھ کر میں نے انکو کال کر دی تھی۔ اب ناراض مت ہونا تمہاری ڈاکٹر ہوتے ہوئے مجھے کسی فیملی ممبر سے رابطہ کرنا تھا۔ اس لیے میں نے پاکستان کال کردی۔

سونیا ! تم نے امی کو سب بتایا تو نہیں؟ نہیں، مشاری! میں انکو طریقے سے سمجھایا ہے آج شام وہ آرہی ہے میرا ڈرائیور انکو لےآئےگا۔ تم پریشان نا ہو۔

آپی ہمیں کل باہر جانا ہے۔ آپ تیار رہنا “نور کہہ کر فوری اٹھ کر اپنی امی کئ کمرے کی طرف بڑھ گئی آویزہ کوئی ہاں ناں کر ہی نا سکی نور جاچکی تھی۔

امی ! آپ فری ہیں؟ نور اندر جھانک کر بولی۔ ہاں بیٹا آجاؤ ۔ کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں؟ “جی امی سب ٹھیک ہے مجھے ایک اہم بات کرنی ہے آپ سے۔۔ “ہاں بیٹا بولو کیا بات کرنی ہے میری سیانی بیٹی نے؟

“امی ہمیں آپی کی شادی کر دینی چاہیے ناں۔ تو کیا ہوا اگر انکی منگنی ٹوٹ گئی انکی پوری زندگی پڑی ہے وہ آگےکا سوچیں کب تک وہ خود کو ایسے رکھیں گی۔ “اپنی بیٹی کے منہ سے اس قدر سیانی بات سن کر وہ تھوڑا خوش ہوئی۔ نور میں اور آپ کے بابا بھی یہ ہی چاہتے ہیں آویزہ شادی کرلے مگر وہ مانتی نہیں۔

امی آپی کو میں راضی کر لوں گی۔ بس رشتہ وہاں کرناجہاں میں کہوںگئ میں نے ایک لڑکا دیکھا بلکل آپی کی طرح ہے ضرور آپی کو پسند آئےگا وہ مان جائےگی”۔ اچھا چلو ٹھیک ہے مجھے تو بتاو کون ہے۔ تو نور نے ساری کہانی سنا دی اور باہر جانے کی اجازت بھی لے لی۔

خانم سعودیہ آگئی تھیں ۔ مشاری سے مل کر انکی ہمت بندھ گئی انکو تھوڑا حوصلہ ہوا کہ بیٹا ٹھیک ہے۔

آخری قسط کے لیے یہاں کلک کریں

پھرے دربدر تیری چاہ لیے۔ از سماء چوہدری (قسط3)‎” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں