مشاری پہ یہ کیفیت پہلی بار طاری نہیں ہوئی تھی وہ اکثر بےکل سا مدہوش سا ہوکر سڑکوں پر نکل کر دیر تک تلاشِ یار کرتا مگر محبوب سات سمندر پار تھا۔ “محبت میں چھائی یہ کیفیت انسان کو تباہ کر دیتی ہے اور کبھی فنا ” تصویرِ یارم تخیل کے اس درجے پر تمام ہوجاتا ہے جب محبوب روبرو نظر آئے لگے۔گاڑی کی رفتار اور مشاری کی آنکھوں سے گرتے اس پانی کا مانو کوئی مقابلہ چل رہا ہو کہ کون ذیادہ رواں ہے۔
گاڑی الریاض کی حدود میں داخل ہوگئی تھی۔ پیچھے آرہی سکول کی بس جس میں سونیا تھی مسلسل مشاری کو کالز کر رہی تھی اور وہ کاٹ رہا تھا ہر کال کو ہر چیز کو حتکہ خود کو بھی۔ ایک گھنٹے پر شاید اتنے عرصے کے انتظار پر بھاری یہ بیس منٹ تھے جس میں وہ الریاض کی سڑکوں پر چل رہی گاڑی میں بیٹھا رو رہا تھا۔ نگاہیں چاروں سمت گھومتے مشاری نے خود پر قابو پانا چاہا مگر ناکام ہوا۔ سو وہ تلاوت کرنے لگا۔۔ ” سیانے سچ کہتے ہیں؛ دل کی دل پر لگی ہو تو خدا بڑا یاد آتا ہے۔ پھر عرش فرش کی تمیز کہاں پھر گلیوں میں ناچنا بھی پڑتا ہے اور خاک کو ماتھے پر سجانا بھی؛ دھول میں دھول ہونا پڑتا تب جاکر ملتا ہے سکون “۔
خوبصورت بلند و بالا عمارت کے سامنے بس روکی تو بچے باری باری اتر کر ایک لائن میں کھڑے ہوگئے۔ سونیا ایک ڈاکٹر تھی اور بحثیت ڈاکٹر اس پروگرام میں شرکت کررہی تھی۔(چوں کہ الریاض کے مکین تھے سو وہی ساتھ آئے تھے) مشاری کی گاڑی بھی اب اس قافلہ میں شامل ہوگئی تھی وہ جیسے ہی اترا نیوز رپورٹر جو کافی دیر سے منتظر سے مشاری کو گھیر لیا۔۔ چاروں سمت نیوز رپورٹر تھے جن میں کچھ پاکستانی چینل تھے۔ “سر آپکی کتاب عربی مترجم سمت انگریزی سب ٹائٹل ساتھ پورے عرب میں شائع ہورہی ہے آپ کچھ بتائیں ؟
کیا بتاوں سب آپ لوگ جانتے ہیں”مشاری مدھم سا بولا۔ سرا اس کامیابی کا سہرا کس کے سر جاتا ہے؟ “پھر ایک پاکستان رپورٹر کا سوال آیا”۔ کامیابی۔۔ (وہ تمسخر خیز لہجے میں گویا ہوا)۔
بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص ۔۔۔ تُو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
“هل هذه قصتك ؟ (یہ آپکی کہانی ہے) ایک عربی رپورٹر نے اپنا فون آگے کرتے مشاری کو مخاطب کیا۔ ” نعم. هذا هو مجموع الأصول في حياتي ( جی ہاں . یہ میری زندگی کے کل اثاثوں کی رقم ہے)مشاری نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا اتنے میں یونیورسٹی کے پروفیسر آگئے اور مشاری کو ساتھ لےگئے۔ بڑے بڑے قدم بھرتے جہاں وہ آگے بڑھ رہا تھا اسکے دل نے پھر دماغ سے بغاوت کرنا شروع کردی۔
نور تم اٹھی نہیں جلدی کرو تمہاری یونیورسٹی میں آج کوئی شو ہے ناں؟ اٹھو اٹھو شاباش آویزہ نے کمرے میں آتے ہی اپنی چھوٹی بہن کو اٹھانا شروع کردیا ” وہ ڈگری آف سائنس و ٹیکنالوجی کی طالبہ تھی الریاض کی المشہور یونیورسٹی الفیصل میں سکالرشپ پر پڑھ رہی تھی۔ نور آج کے شو میں مہزبانی کرنے جارہی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی جلدی سے بستر کو الوداع کہتے وہ تیار ہونے لگ گئی۔
آپی آپ نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں آج میرا اتنا اہم شو تھا میرا پسندیدہ رائٹر آج ہماری یونیورسٹی آئےگا اور میں اسکا انٹرویو لوں گی۔ افف دیر ہوگئی آپی۔ آپ بھی ناں! وہ جلدی جلدی اپنے کام کر رہی تھی۔ آویزہ تھوڑا حیران ہوئی نور کا کون اتنا پسندیدہ رائٹر ہے جسکو وہ نہیں جانتی اور آج اس سے ملنے جا رہی”۔
نور یہ کون رائٹر ہے جسکو میں نہیں جانتی ؟ وہ تجسس سے پوچھ بیٹھی۔ “آپی آپ نہیں جانتی اتنا کمال کا لکھتا ہے افف۔۔ بہت گہرائی ہے اس کے کام میں خود بھی بڑا پرُاثر شخصیت کا مالک ہے۔پتہ ہے؟ اسکی اتنی ایج بھی نہیں ہے مجھ سے بس ایک دو سال بڑا ہوگا۔ بہت خوش شکل ہے۔ میری دوستیں جو عربی اور یورپی ہیں وہ کہتی ہیں؛ “مشاری احمد واصف کی آنکھیں بولتی ہیں”، انکا کرش ہے وہ واقعی بہت پیارا ہے۔
آویزہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ۔ وہ نام جو نور لےرہی تھی اس پر کسی طوفان کی طرح گرا اس پر سکتہ طادی ہوگیا۔ ” مشاری___ !! وہ زر لب بولی آنکھوں سے برسات جاری تھی اور لبوں پر تالا لگ چکا تھا ۔کافی دیر اندھیرے کمرے میں وہ خاموشی سے پڑی رہی۔ “نور کب کی جاچکی تھی مگر آویزہ اپنے ماضی میں ایسا گم تھی کہ آج کے مشاری سے اسکا سامنا کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ اسکو مشاری کی باتیں یاد آرہی تھی جب وہ کہتا تھا؛ “آویزہ ایک دن میں بہت بڑا رائٹر بن جاؤں گا تو اپنی پہلی کتاب تمہارے نام لکھوں گا”۔
وہ اچانک اٹھی اور ٹی وی کا ریموٹ ڈھونڈنے لگی۔دھڑکن بے تحاشہ تھی وہ کانپتے ہاتھوں سے ٹی وی کو آن کرکے بیٹھ گئی۔۔ آنکھوں کو بار بار صاف کر رہی تھی وہ مشاری کو دھند میں لپیٹا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ آنکھیں ترس ہوئی ایک سیکنڈ بھی سکرین سے ادھر نا ہوئی وہ جمی ہوئی برف کی طرح منجمد ہوگئی۔ مشاری احمد واصف کا نام ٹی وی سکرین کر چلتا دیکھ وہ خوش تھی مگر اندر کے موسم نے توڑ ڈالا تھا ۔ “آخر تم آہی گئے مشاری ۔۔۔ وہ خود سے کہہ رہی تھی”۔
یونیورسٹی میں داخل ہوتے مشاری کو اپنے دن یاد آگئے وہ ان نوجوانوں کی خوش گپوں کو سن کر مسرور سا دھن میں چل رہا تھا کہ آخر مننرل آگئی۔ اس ہال میں ٹین ایجرز کی بھاری تعداد موجود تھی۔ان کے درمیان سے ہوتے ہوئے وہ سامنے بلند و بالا خوبصورت سجائے ہوئے سٹیج کی طرف متوجہ تھا۔ اپنے نام کو ہال میں گونجتا دیکھ وہ متلاشی نظروں سے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا شاید ان میں وہ ایک آواز بھی ہو جس کو سننے کےلیے کان ترس گئے۔ وہ آنکھیں وہ چہرہ وہ سراپا جس کے لیے وہ خود سے انجان ہوا پھر رہا تھا کہیں سے سامنے آجائے۔وہ اس مجمے میں بھی آویزہ کو بنا دیکھے پہچان سکتا تھا۔
ان دنوں یونیورسٹی کا پروفیسر محمد عقیل جو کہ ایک پاکستانی تھا مشاری کی آرٹ کونسل کی صدارت بھی کر چکے تھے۔اور پاکستان میں ہوئی کتاب کی رونمائی پر مہمان خصوصی بن کر آئے تھے۔ وہ ایک کتاب جو بطور تحفہ عقیل یوسفی کو ملی تھی آج وہ اپنے ساتھ لیے مشاری کو ان چند پیراگراف کو پڑھنے پر آمادہ کر رہے تھے جن میں عجب فلسفہِ عشق تھا ، بے قراری تھی ؛ جنوں تھا سرور و سوز تھا۔
سٹیج پر موجود چند لڑکیاں جو آج کے پروگرام کی میزبانی کرنے والی تھی ان سے پھولوں کا گلدستہ موصول کرتے مشاری ایک پل کے لیے تو ٹھہر گیا۔ سامنے کھڑی اس اٹھارہ بیس کی لڑکی کو مخاطب کرتے مشاری ناجانے کیوں اس سر پر شفقت سے ہاتھ کردیتا ہے۔ ” آپکا نام کیا ہے بیٹا۔ ؟ مشاری نے تھوڑا جھک کر پوچھا اس شور شرابے میں وہ اسکا نام سننے سے قاصر تھا۔
تھوڑا اور جھکا تو اس نے کہا۔ ” میرا نام نور اعجازی ہے” ۔ مشاری کے چہرے پر گہری مسکان چھائی اور وہ آگے پڑھ گیا۔
اپنی کرسی پر بیٹھے مشاری کی آنکھوں کے سامنے لاکھ چہرے گھوم رہے تھے اور وہ چپ سا سب کو دیکھ رہا تھا ۔ اتنے میں ویب اور ٹی وی چینلز کے رپورٹر اپنی منتخب کردہ جگہ پر آچکے تھے اور یہ شو براہ راست پیش کیا جارہا تھا۔
سوال و جوابات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ہر کوئی اپنا سوال لیے ہاتھ اٹھا رہا تھا ان سب میں کھڑی سونیا نے بھی اپنا ہاتھ اٹھایا تھا جس پر مشاری تھوڑا سا ہنسا وہ جانتا تھا وہ کیا پوچھنے والی ہے۔ اس کے ہاتھ اٹھانے پر ایک لڑکا بھاگ کر گیا اور اسکو مائک دیا۔ “مشاری احمد واصف جو لڑکیوں میں ینگ رائٹر کے طور پر بہت مشہور ہے۔ اس کو کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی”؟ (سونیا نے جلتے میں گھی ڈالا تھا)۔
“محبت ہونا ایک فطری عمل ہے انسان اسی فطرت کا مارا ہے ہاں مجھے بھی بھئ کسی سے محبت ہے اگر وہ محبت نا ہوتی تو مشاری احمد واصف کبھی بھی “دا رائٹر مشاری احمد واصف ” نا بنتا”۔ اس مجمے میں پھر ایک سوال اٹھا۔ “سر آپ نے شادی کیوں نہیں کی ؟”
“میں 17 سال کا تھا جب میری شادی ہوگئی( یہ وہ وقت تھا جب مشاری آویزہ سے ملا اور خود کو کہتا تھا تم سے ملنے کے بعد اب مجھے شادی نہیں کرنی بس میری شادی ہوگئی)۔
آپ کی کتاب ” پھرے دربدر__ ” کیا آپ کی اپ بیتی ہے؟ ایک پاکستانی لڑکی نے پوچھا۔ جس پر مشاری نے بس مسکان دی۔
سر میرا بھی آپ سے ایک سوال ہے نور نے اشارہ کیا جس پر مشاری خود چل کر اس کے پاس آیا۔ پوچھیں۔ میری دوستیں کہتی ہیں؛ “مشاری احمد واصف نے کسی لڑکی سے بہت محبت کی اور وہ چھوڑ کر چلی گئی اسی لیے وہ اتنا دکھی لکھتا ہے”۔ کیا یہ سچ ہے؟ اس نے آپکو کیوں چھوڑا؟ نور نے تصدیق چاہی۔
“نا اس نے مجھے چھوڑا اور نا میں نے اسکو مگر حالات نے ہمکو چھوڑ دیا محبت میں حاصل ہی سب کچھ نہیں ہوتا عزت، قدر اور احترام سب کچھ ہے بہت دفعہ کسی کو چھوڑ دینا بےوفائی کی علامت نہیں ہوتا۔ ہم جن سے بہت پیار کرتے ہوں کبھی ان کے لیے ہی انکو چھوڑنا پڑتا ہے۔ تاکہ وہ خوش رہ سکیں اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکیں محبت میں خودغرضی نہیں کام آتی فراق دلی سے محبتوں کو نبھانا پڑتا ہے”۔ نصیرؔ ترابی نے کیا خوب کہا ہے کہ؛
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
مشاری سرد آہ بھری آواز میں غزل پڑھ رہا تھا اور آنکھیں بنا اجازت پھر بھیگ گئی، “کتنا مشکل ہےناں روتے ہوئے ہنسنے کی اداکاری کرنا، لوگوں کے سامنے دکھاوا کرنا، اندر تباہی مچی ہو اور باہر سے رنگ روغن کرنا۔ محبتوں میں یہ اداکاری وراثت میں ملتی ہے اور محبت کی وراثت میں ملا غم سنبھالا پڑتا ہے”۔
“مشاری بلکل ویسے ہی ہو ہاں اب سمجھدار ہوگئے ہو۔ مشہور بھی ہوگئے ہو آخر تم نے مان ہی لی مشاری”۔ آج چھ سال بعد وہ مشاری کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں نم مگر مسکراتی ہوئی وہ اسکی ترقی پر خوش تھی۔
“کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت۔۔ کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی”۔ غزل کا ہر شعر آویزہ کو واپس ماضی میں لےگیا۔
وہ خیالوں پہ سفر کرتی ابھی ماضی کے دروازے پر دستک دینے والی تھی جب اپنی ماں کی آواز پر آنکھیں کھول دی۔ آویزہ!! جی امی آئی۔ “نگاہوں سے بوندے صاف کرتے وہ کمرے سے نکلی”۔ بیٹا ! تمہارے بابا چاہتے ہیں تم ان کے دوست کے بچے سے مل لو ایک بار۔
“امی ! اس نے تلخ نگاہوں سے بھرے لہجے سے اپنی ماں کو مخاطب کیا تھا ” ایک بار آپکی بات مان لی جو آپ چاہتی تھی کیا مگر امی اب نہیں مجھے نہیں کرنی شادی آپ کیوں نہیں سمجھ رہی۔ وہ بضد تھی اپنی بات پر۔
“مگر بیٹا منگنی ہونا ٹوٹ جانا رشتہ قائم کرنا یا توڑ دینا اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔ مانا وہ لوگ لالچی تھے ہمکو اللہ نے بچا لیا مگر آویزہ بیٹیاں ایک نا ایک دن اپنے گھر کی ہوتی ہیں۔میں اقر تمہارے بابا نہیں چاہتے تم اپنی بھابھی کی باتیں سنو بیٹا اپنی زندگی میں کوئی اچھا لڑکا ڈھونڈ کر تمہاری رخصتی کردیں گے بس میری بچی کا نصیب اچھا ہو”دوپٹہ سے اپنے آنسو صاف کرتی ماں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور آویزہ وہاں ہی بت بنی رہی۔
تقریب کا اہتمام ہونے والا تھا پریس میں کتاب کا پہلا ٹائٹل کور دکھا دیا گیا تھا۔ اب ہال خالی ہونا شروع ہوگیا۔ مشاری کی نظر سیڑھیاں اترتی نور پڑی تو ناجانے کس جذبے سے چلتا ہوا پاس آگیا ہاتھ میں پکڑی اپنی کتاب کی آخری کاپی اسکو تھما دی۔ “یہ آپ کے لیے اور میں میرا کارڈ بھی ہے جس پر میرا نمبر درج ہے، جب اس کتاب کو پڑھ لو تو مجھے واپس کردینا”۔ واپس؟ مجھے لگا آپ مجھے تحفہ دے رہے ہو۔ نور ہنس کر بولی۔
ہاں وہ بھی دوں گا جب نیا ایڈیشن شائع ہوا پہلی کتاب آپکو دوں گا یہ پرانی ہوگئی ہے ناں اور میری ہے اس کی بہت جگہ پر میں نے نشانات لگائے ہیں۔ (مشاری کو نور بلکل اپنی چھوٹی کی طرح لگی یا شاید وہ جان گیا تھا یا ابھی تک انجان تھا)۔
“اوکے سر میں آپکو واپس کردوں گی۔ وہ تحمل سے بولی”۔ کیا آپ مجھے بھائی کہہ سکتی ہیں؟۔ وہ جاتے جاتے پھر پلٹی ہاں ضرور کیوں نہیں تھوڑی الجھی سی نور اب تیزی سے ہال سے نکل گئی اور وہ جاتی اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔
“پھرے دربدر تیری چاہ لیے۔ از سماء چوہدری (قسط2)” ایک تبصرہ