پھرے دربدر تیری چاہ لیے۔ از سماء چوہدری (قسط1)‎

تمہیں کوئی اور دیکھے تو جلتا ہے دل _ بڑی مشکلوں سے پھر سنبھلتا ہے دل _ یہ دل بےقرار کتنا یہ ہم نہیں جانتے _ مگر جی نہیں سکتے تمہارے بنا!

کشور کمار کے اس گیت نے کمرے میں چھائی گہری خاموشی کو مذید گہرا کردیا تھا۔ وہ جس رفتار سے خالی پرچے کالے کر رہا تھا اب بلکل مدھم سا نیم مے کے نشے میں گُم سا یک ٹُک دیوار پہ لگی ایک تصویر کو دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں سے کچھ بہہ رہا تھا جسکو وہ آنسو نہیں بلکہ یاد کہتا تھا۔ گھڑی پہ بھاگتے وقت نے بھی تمسخر اڑاتے اپنے کانٹے اور تیز کردیے تھے۔
بآخر وہ اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھا۔ موسم بہت بدل گیا تھا کالے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے بارش کی شکل اختیار کر گئے۔ چند منٹ پہلے کی دھوپ اب کالے رنگ میں تبدیل ہوگئی تھی جو مسلسل برس رہی تھی۔

مشاری ؛ بیٹا کمرہ گیلا ہورہا ہے اور تم بھیگ رہے ہو بند کرو کھڑکی ورنہ بیمار ہوجاوگے(وہ اپنی دھن میں مگن تھا جب خانم نے اسکو مخاطب کرتے کہا اور کھڑکی بند کر دی تھی)

“میں تو کبھی خشک ہی نہیں ہوا میرا دامن تو ہر لمحہ اسکی یاد میں آنسو بہاتا ہے” مشاری نے زرِ لب کہا مگر خانم نے سن لیا۔۔
مشاری؛ بیٹا اب تک اسکی شادی بھی ہوگئی ہوگی وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئی ہوگی اور تم کب تک اس سوگ میں اپنا آپ یوں تباہ کروگے؟

امی ہوگئی ہوگی! ہوگئی ہے نہیں ؛ میں کیسے ایک انجانے یقین پہ اپنی محبت کا گلہ گھونٹ دوں؟ بس میں نے سوچ لیا ہے میں اسکی تلاش میں جاوں گا۔ “مشاری نے حتمی فیصلہ سُنا دیا۔
خانم دن بہ دن اپنے بیٹے کو کمزور ہوتا دیکھ مذید پریشان ہوجاتی وہ جانتی تھی مشاری ضدی ہے مگر محبت میں اتنا دور اور گہرا کھو جائیگا خانم نے کبھئ نہیں سوچا تھا۔

“محبت بھی عجیب نشہ ہے،جب محبوب کا تصور رگوں میں خون کی مانند دوڑتے لگے تب انسان ہر رشتے سے بغاوت کرلیتا ہے۔پھر خوف معنی کھو دیتا ہے اور جوش عقل و فہم ”

آویزہ ، تمہیں کوئی پسند ہے ؟؟ عشرت نے نرمی سے پوچھا۔ “نہیں امی ایسی کوئی بات نہیں ہے”جہاں جب آپ لوگ کردیں میری طرف سے کوئی انکار نہیں ہوگا”

پھر بھی بیٹا عمر بھر کا تعلق اور موت تک کا رشتہ ہوتا ہے۔ تمہیں کوئی پسند ہے تو بتا دو تمہارے ابو بہت پریشان ہیں۔ بچیوں کی عمر نکل جائیں تو کہاں ملتے ہیں اچھے رشتے۔ عشرت نے التجا بھری نگاہوں سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا۔

امی! آویزہ نے آگے بڑھ کر اپنی ماں کے ہاتھ تھام لیے ۔ آپ جانتی ہیں ناں “وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا؛ نصیب میں جب ہوا تب ہوگا رشتہ آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں’

ٹھیک کہہ رہی ہو میری جان ‘ مگر ماں باپ کو تو ہر پل پریشانی رہتی ہے بیٹیوں کے مقدر سے ڈر لگتا ہے۔ اللہ میری بیٹی کا نصیب اچھا کرئے۔ عشرت پرنم سی آنکھیں لیے کمرے سے نکل گئی۔

یار میں کب سے آن لائن بیٹھا ہوں انتظار کر رہا ہوں تمہارے میسج کا اور تم کہاں مصروف ہو ؟ تمہیں بتایا بھی تھا آج شام کو ہم باہر جارہے امی زبردستی مجھے لےجارہی ہیں۔ مشاری نے تیز رفتاری سے میسج ٹائپ کر رہا تھا مگر سامنے سکرین پہ آویزہ کا کوئی بھی رپلائے موجود نہیں تھا”

آویزہ سب ٹھیک ہے ناں؟ تم چپ کیوں ہو ؟ کچھ ہوا ہے کیا؟ کچھ تو لکھو ۔۔۔۔ آویزہ ؟؟ تم پڑھ رہی ہو میرے میسج مگر جواب نہیں دے رہی مجھے پریشانی ہورہی ہے۔

مشاری !! “لیپ ٹاپ سکرین پہ بڑا سا چمک رہا اپنا نام دیکھ کر مشاری کے چہرے پہ گہری مسکان چھائی۔ جی جناب میں سن رہا آپکو بولیں” وہ ذومعنی لہجے بولا’ مشاری تم مجھ سے شادی کروگے؟ آویزہ کا میسج تھا یا کیا مشاری خاموش ہوگیا۔

آویزہ! میں اپنی بہنوں سے چھوٹا ہوں ابھی انکی شادی کرنی پھر میرا جاکر کہیں ہوگا ویسے بھی میری پڑھائی ابھی رہتی ہے وہ بھی مکمل نہیں ہوئی میں کس طرح گھر پہ بات کروں ؟ اور کر بھی لوں تو تمہارے امی ابو مان جائیں گے؟ آویزہ یار !

تم نے ” ایم بی اے ” کیا ہے اور میری ابھی “ایم ایس سی” بھی مکمل نہیں ہوئی انکل لوگ ایک بےروزگار کے ہاتھ اپنی پڑھی لکھی بیٹی کا ہاتھ کیسے دیں گے؟؟ انکار ہوگا وہ بھی بڑا سا۔” مشاری نے مزاح میں کہا”

مشاری ! ہم دو سال سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اس آن لائن دوستی کو کب پیار کا رنگ چڑھ گیا پتہ بھی نہیں چلا ۔۔ تم مجھ سے دو سال چھوٹے ہو پھر بھی ہم میں ربط ہے ہمارا تعلق پاک ہے مجھے پتہ ہے تم بہت اچھے لڑکے ہو مجھ سے محبت کرتے ہو چاہتے ہو اپنانا مگر مشاری میں مذید رشتوں سے انکار نہیں کرسکتی۔امی دن بہ دن ڈپریشن کا شکار ہورہی ہیں۔ ادھر ابو بہت فکرمند ہیں۔ ہممممم !!! “مشاری کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا ”

کیا ہممم؟؟ مجھے بتاو میں کیا کروں مشاری ؟؟ کوئی راستہ؟ تم اپنے گھر بات نہیں کرسکتے اور میں اور انتظار نہیں کرسکتی اب امی نے جہاں کہا میں نے ہاں کر دینی ہے۔ میں اور دکھ میں نہیں دیکھ سکتی اپنے امی ابو کو ۔

ٹھیک ہے آویزہ تمہارے والدین جہاں کہتے تم کرلو میری قسمت میں شاید تم ہو ہی نہیں شاید کوئی مجھ سے بھی اچھا مل جائے شاید وہ تم سے ذیادہ محبت کرئے خیال رکھے۔ ” مشاری نے کاپنتے ہاتھوں نے یہ میسج لکھا اور سکرین سے دور ہوگیا۔۔۔ یا شاید وہ آویزہ سے دور ہوگیا ۔

مشاری! مجھے تم سے ذیادہ کوئی چاہ نہیں سکتا تمہاری پاک محبت اور احترام میرے لیے کتنا اہم ہے تم جانتے ہو۔۔ مگر ہم دوست بھی نہیں رہ سکتے۔ تم دل لگا کر پڑھائی کرو۔۔ جو چاہتے ہو وہ بن جاو ایک دن بہت کامیاب انسان بنو گے میری دعا ہے مشاری میں تمکو کامیاب دیکھنا چاہتی ہوں۔ ہو سکے تو مجھے معاف کردینا میں تمہیں بلاک کررہی ہوں مشاری۔ “آویزہ کا شاید یہ آخری فیصلہ تھا۔مگر مشاری کےلیے ناقابل یقین تھا یہ سب ایک ہی دن میں سب کچھ ختم ہوگیا۔ سب کچھ۔

“پرانی یادوں کے صفحے پلٹے اکثر آنکھیں نم ہوتی ہے کبھی خوشی سے تو کبھی درد سے۔۔ کبھی حاصل کی جیت پہ تو ناحاصل کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے۔۔ انسان ٹوٹ سا جاتا ہے اور کمال یہ ہے کہ شور بھی نہیں ہوتا۔ دھواں بھی نہیں اٹھتا جبکہ دل دریا میں آگ مچی ہوتی ہے”

اپنی ای ڈی میں اب تک محفوظ کیے آویزہ کے وہ میسج جو مشاری پچھلے تین سالوں سے پڑھ رہا بلکل کل کی بات جیسے تھے جسکو وہ ہر پل نئے سرے سے یاد کرتا تھا۔ جبکہ آویزہ کے تمام باتیں اسکو زبانی یاد ہوگئی تھی پھر بھی دیکھتا ضرور تھا۔

آویزہ کا تعلق عمان سے تھا اس سے ابا سرکاری ملازم تھے۔ والدہ گھریلو عورت تھیں۔ کام کی نوعیت کے مطابق گلفام صاحب امان میں اپنی فیملی کو لےگئے تھے۔ تب انکا ایک بیٹا تھا باقی بچے ادھر عمان میں ہی پیدا ہوئے۔۔ گھر کا ماحول چوں کہ مذہبی تھا اور آدھا خاندان پڑھا لکھا اچھی ملازمتوں پہ تھا کچھ میڈیکل ، آرمی اور وکالت کے شعبہ سے منسلک تھے۔ اس لیے پڑھائی پہ توجہ ذیادہ دی جاتی آویزہ نے MBA کیا تھا اور جاب کی تلاش میں ان دنوں وہ ایک سکول میں بطور استاد اپنے فرائض ادا کر رہی تھی مگر مذید اچھئ جاب کی خواہش مند وہ MBA کی طالبہ تھی اور اسی کے مطابق کام کرنا چاہتی تھی۔
مشاری اور آویزہ کی پہلی ملاقات انٹرنیٹ پہ ہوئی جب مشاری FA کے آخری مرحلے میں تھا اور آویزہ اپنے BBA کے پیپرز کی تیاری کر رہی تھی۔

“ملاقاتیں بھی مقدر میں لکھی ہوتی ہیں۔ ہر کوئی ہر کسی سے ایسے ہی تھوڑی ملتا ہے وقت مقرر ہوتا ہے ہر ملاقات کا، پھر ناچاہتے ہوئے بھی طے شدہ مقام پر ،ملنا ہی پڑتا ہے”۔

مشاری گھر میں دوسرے نمبر پہ تھا دو بہنیں تھی جو پڑھ رہی اکیلا ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی زمہ داریاں اس کے سر تھی۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک اچھی جاب کی تلاش ایک بہتر انسان ہونے کا خواب اور اپنے لکھنے کے شوق کو پورا کرنا مشاری کے لیے دن بہ دن مشکل ہوتا جارہا تھا۔ اوپر سے یہ محبت جو بری بلا ہے کھا جاتی ہے اچھے بھلے انسان کو ۔ “کچی عمر کی پکی محبت بھی آسیب کے سایے کی طرح ہوتی ہے جو مرنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتی”۔

امی مجھے سعودیہ سے جاب کی آفر آئی ہے، وہاں پاکستانی اسکول ہیں جہاں بچوں کو ملکی زبانوں کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کا علم بھی دیا تھا باہر کے ممالک میں سب سے بڑا خطرہ جو والدین کو لاحق ہوتا ہے وہ ہے اپنے ملک کی عام زبان جو شاید بچے سیکھ نہیں پاتے” مشاری نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے پوری وضاحت دیتا ہے۔ خانم کی آنکھیں اب بھی سچ تلاش رہی تھی۔۔ ساڑھے تین سال پہلے مشاری کے چہرہ پہ تھپڑ رسید کرتے خانم نے اپنے بیٹے کو پل پل مرتے دیکھا ہے۔ مشاری ہفتوں گھر سے دور رہتا کبھی کسی مقامی دربار تو کبھی کسی صوفی درگاہ پہ پڑا ہوتا۔ اکثر تو مسجد میں اس کے ہونے کی خبر مولوی صاحب خود خانم کو دیتے؛ آپکا کا بیٹا چار دن سے مسجد میں ہے۔ اب کی بار خانم مشاری کو روکنا نہیں چاہتی تھی وہ تجسس وہ ہاں ناں کی طلب وہ بے قراری تو ہر وقت مشاری کے روبرو ہوتی تھی۔

اپنے کمرے میں پڑے اپنے سامان سے اپنی وہ آخری کتاب جو چند ہفتے پہلے شائع ہوئی تھی مشاری نے نیلے چاند(BlueMoon ) کے نام کی تھی۔۔ وہ چاند جو سوز و الم کا دریا ہے یہ سفر نامے تھے جس میں اس نے اپنی تلاش کا بتایا مگر منزل کا نہیں ۔۔۔ وہ لمحہ لمحہ بکھرتا بلکل ریت کی مانند اور پھر مٹی کے بےبنیاد گھر کی طرح جُوڑ بھی جاتا جسکا کوئی دروازہ نہیں تھا جس میں کوئی کھڑکی نہیں تھی بس چاروں اور سے ہوا کا جھونکا اسکو چھو جاتا تو وہ سمجھتا آویزہ ہے۔۔

آج اسکی کتاب ” پھرے دربدر___ ” عربی ترجمہ اور انگلش سب ٹائٹل کے ساتھ عرب ممالک میں شائع ہورہی تھی۔

سعودیہ آئے ہوئے مشاری کو آج دو دن ہوگئے تھے۔اور یہاں اسکی ملاقات سونیا سے ہوئی جو ڈاکٹر تھی۔ بچوں کو صحت و صفائی کےلیے کلاس دینے اتوار کو آتی تھی مشاری کی کتاب وہ پڑھ چکی تھی وہ فین تھی۔ مشاری آن لائن سوشل میڈیا پہ کافئ مشہور تھا اسکی اچھے خاصےفین تھے۔ سونیا اسکو ایک ہی نظر میں پہچان گئی۔” کالے شلوار قمیض میں ملبوس وہ شخص اس ظاہری دنیا سے تو بےخبر رہتا تھا مگر شخصیت کا سحر دیر پا ہوتا جو بھی ایک بار ملتا وہ گفتار کا دیوانہ ہوجاتا۔۔ وہ الگ سی مہک دیتا ایک بیگانہ سا شخص تھا”

سونیا سے اچھی دعا سلام ہوگئی تھی۔ تو مشاری کو اب اس سے بات میں جھجھک محسوس نہیں ہوتی تھی۔۔ اسی دوستی میں وہ کچھ باتیں سونیا سے بانٹ لیتا اور کبھی سونیا اس سے۔۔ سونیا کی منگنی ہوئی تھی مگر جس سے ہوئی وہ فراڈ تھا پتہ چلنے پہ ناصرف سونیا نے رشتہ ختم کیا بلکہ اُس پر کیس ڈال کر اسکو سعودی پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
“دکھ ہی دکھ کی زبان ہوتا ہے، چہرے پہ چھائی مسکان بھی ابدی ہے جسکو فنا ہونا ہے۔۔ وجود تو پھر کسی چیز کا نہیں رہنا۔ ایک روح جو اپنے اصل کو واپس جاتی ہے ہم تم جو مٹی تھے مٹی ہونا ہے ۔۔ ہوا کو حکم ہے وہ مٹی ہو اڑا لے مگر زیادہ بلندی پہ لے جانے کے بعد ہوا بھی مٹی کو واپس زمین پہ دی مارتی”۔

عُمان میں اعبري شہر کی مسجد اُم القري کے آس پاس ہی آویزہ کی رہائش تھی وہ اکثر بتایا کرتی تھی۔مگر ان آخری ایام میں وہ لوگ الریاض منتقل ہوگئے تھے ۔ عمان کو چھوڑے ذیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا ۔ مشاری جس سکول میں بطور استاد کام کر رہا تھا وہاں کافی سارے بچے الریاض سے تھے(جو زخموں پہ نمک پاشی کا کام کرتے) اور کبھی وہ ان بچوں کو دیکھ کر خوش ہوجاتا۔۔مگر کل اسکی کتاب کی اشاعت پورے سعودیہ میں ہونے جارہی تھی وہ خصوصی خطاب کے لیے الریاض کی مشہور یونیورسٹی الفیصل میں جانے والا تھا۔۔ انکار کی کوئی خاص وجہ نا مل سکی تو ہامی بھرنا پڑی۔ مشاری کل صبح سات بجے الخرج سے الریاض کے لیے نکلے والا تھا ایک گھنٹے اور تیس منٹ کا یہ سفر اسکو عجیب بےسکونی میں مبتلا کر رہا تھا۔

“جس رستے پر تپتا سورج ساری رات نہیں ڈھلتا عشق کی ایسی راہ گزر کو ہم نے چنا ہے سینے میں ہر دم, ہر پل بے چینی ہے کون بلا ہے سینے میں_آوارہ پن, بنجارہ پن ایک خلا ہے سینے میں!!

آنکھیں موندے وہ پُرسکون سا لگ رہا تھا مگر ان بولوں پر دل میں محشر سا سماں بندھ گیا “جیسے اچانک کسی پرندے کو آسمان سے پکڑ کر قید میں ڈال دیا ہو اور وہ اپنے رہائی کی کوشش میں اپنے پر زخمی کرلے۔۔ مشاری کا دل کر رہا وہ اس چلتی گاڑی سے گود جائے۔ آویزہ کی باتیں اسکا چہرہ اسکا تبسم ہر سوں چھا گیا تھا۔

اگلی قسط کے لیے یہاں کلک کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں