نوجوانان ملت کے نام

بلاشبہ نوجوان کسی بھی قوم کاعظیم سرمایہ ہوتے ہیں. اور زندہ قومیں ہمیشہ اپنے مایہ ناز سپوتوں پر فخرکرتی ہیں. ان نوجوانوں کی قومی و ملی حوالے سے ہی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ یہ نوجواں اگر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے نکلیں تو رب العزت کے ہاں بھی ان نوجوانوں کا اہم مقام ہوتا ہے.عمر کے اس سنہری دور کو ہمارے ہاں عام طور پر شغل میلہ لگانے کی عمر کہا جاتا ہے اور بلا تردد انجام کی پرواہ کیے بغیر وہ تمام کام کیے جاتے ہیں جو خالق حقیقی کو سخت ناپسند ہیں اور اس دنیا کی زندگی کو ابدی سمجھا جاتا ہےحالانکہ رب العزت کا فرمان ہمیں ان الفاظ میں تنبیہ کر رہا ہے {وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ}یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ، اصل زندگی تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش! وہ لوگ یہ بات جانتے ہوتے۔ [العنكبوت : 64] اور اگر اس سنہری دور میں انسان اطاعت و فرمانبرداری کا خو گر بن جائے تو پھر رب العزت اسکو قابل رشک مقام سے نوازتے ہیں.
قرآن حکیم مین سوره کھف کے اندر رب العزت نے چند نوجوانوں کا ذکرفرمایا ہے جنہوں نے توحید کی سربلندی کیلئے اپنی جوانیاں نچها ور کیں اور ہر قسم کے مصائب والام کو برداشت کیا. اللہ رب العزت کو انکی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ ان کا تذکرہ اپنی عظیم کتاب میں فرما دیا جو قیامت تلک نہ صرف محراب و منبر پر گونجتا رہےگا بلکہ ہرزمانے کے لوگ انکو خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے اور انکو اپنا آئیڈیل بنا تے رہیں گے.
فرمایا:
{نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى. وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا} وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے اور ہم نے انہیں مزید رہنمائی بخشی. اور ہم نے ان کے دلوں کو اس وقت مضبوط کردیا جب انہوں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ: “ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی اور الٰہ کو نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو یہ ایک بعید از عقل بات ہوگی” [الكهف :13-14]
صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث ہے کہ قیامت کے دن اللہ سات لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ فراہم کرے گا.. ان میں سے ایک وہ نوجوان ہو گا جو اللہ کی محبت میں پروان چڑھا. جوانی کی عمر کی اہمیت اور اس دور کی قدرو قیمت کا اندازہ نبئ محترم ص کے اس إرشاد گرامی سے بھی ہوتا ہے
عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
رسول ﷺ نے فرمایا:

«اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَ صِحَتَكَ قَبْلَ سُقمِكَ وَ غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَ حَیٰوتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ»

”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔”
(صحیح الترغیب للالبانی:3355)
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے

اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور وغیور.
تو قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں

میری ملت کے نوجوانو! آج امت مسلمہ بڑے کڑے حالات سے گزر رہی ہے ہر طرف خوف و ہراس کا عالم ہے امت مسلمہ کی زبوں حالی پکار رہی ہے کہ نوجوانان ملت کہاں گم ہیں؟؟ ایسے وقت میں جب ایک طرف اسلامی سرحدیں اپنی بدحالی پر کسی محمد بن قاسم اور یوسف بن تاشفین کی راہ تک رہی ہیں اور دوسری طرف امت مسلمہ کی تنزلی کے اس دورمیں حکمران طبقہ حرص و ہوس، عہدوں کی لوٹ کھسوٹ اور یہود و ہنود کی کاسہ لیسی میں مصروف ہے تو آگے بڑھوملت کو تمہارے جواں جذبوں کی حدت چاہیے.یاد رکھو!!!
امت مسلمہ کی نشأ ة ثانیہ کا راز تمہاری مساعی و جدوجہد میں پنہاں ہے. امت مسلمہ کی نگاہیں تمہیں ڈھونڈ رہی ہیں. اگر تم نے اس پکار کو نظر انداز کر کے اپنی حسین جوانیوں کو لہو و لہب میں ڈبو دیا تو کل قیامت کے دن اس کا حساب چکانا ہو گا.سعادتوں کا حصول چاہتے ہو تو اپنی جوا نیوں کو قران و سنت میں ڈھال لو. توحیدو سنت کے زیور سے خود کو آراستہ کر لو، دنیا و آخرت کی بهلائیاں تمہارے نقش پا ہونگی إن شاء اللہ آخر میں ایک شاعر کا پیام پیش خدمت ہے اس امید کے ساتھ کہ:-
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔

آج کے نو جوان سن لے میری فغاں
میں تجھ کو دیتا ہوں اللہ کا واسطہ۔
ترک کر اب تو تجویز خود ساختہ۔
تونے اپنا لیا غیر کا راستہ۔
تجھ کو بننا تھا اسلام کا پاسباں۔

میں نے مانا کہ گانوں میں بھی ہے کشش
عاشقی کےافسانوں میں بھی ہے کشش
پر بتا کیا اذانوں میں بھی ہے کشش
یاد کرتا ہے تجھ کو مالکِ دو جہاں

کب تلک دار فانی کے عیش وطرب
ختم ہو گی کب یہ تاریک شب
روشنی میں آ خود کو پہچان اب
تجھ کو مل جائے شاید کہ تیرا نشاں

توحسینوں کے چکر میں پھرتا ہے کیوں
تجھ کو ہرگز نہ ملے گا اس میں سکوں۔
تجھ کو برباد کر دے گا تیرا جنوں۔
ہے تیرے سامنے ذلتوں کا کنواں۔

میں نے مانا ابھی تو معمر نہیں۔
لیکن موت کا وقت بھی مقرر نہیں۔
دار فانی ہے رہتا کوئی گھر نہیں۔
تو مسافر ہے دنیا ہے اک سائباں۔

بیٹھکوں میں یوں نہ وقت برباد کر
نفس کی قید سے خود کو آزاد کر
۔ اپنے خالق کو بھی کبھی یاد کر۔
پھر دیکھ وہ تجھ پر ہے کتنا مہرباں

داڑھی رکھنا یہ مانا ہے مشکل مگر۔
روز محشر یہ آقا نے پوچھا اگر۔
میری صورت میں کیا نقص آیا نظر
کیا کہے گا جواباً بتا تو وہاں

اپنا تبصرہ بھیجیں