دنیا میں کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو ایک عظیم اور بلند مقصد کے لیے جیتے اور مرتے ہیں۔ اور تمام عمر اس کے حصول لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں رحمہ اللہ بھی ایک ایسے ہیرو ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم و ملت کو ایک نئی جلا بخشی۔ اور ان کے سوئے ہوئے جذبوں کو جگانے کے لیے وہ اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لائے۔ اس لیے ان کا شمار نہ صرف قومی حوالے سے ہمارے عظیم محسنوں میں ہوتا ہے بلکہ وہ ایک ایسے بلند پایہ شاعر تھے جنہوں نے اپنی لسانی قوتوں کو استعمال کر کے نہ صرف انگریز وں کے ایوانوں میں کلمہ حق بلند کیا بلکہ مسلم امہ کو بھی اسلام کے ساتھ وابستگی کا درس دیا۔
ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہماری تاریخ کی دو مایہ ناز شخصیات یوں گویا ہوئیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ترکوں کو جگانے کے لیے اتا ترک کی تلوار نے جو کام کیا وہی کام مسلمانوں کو جگانے کے لیے ظفر علی خاں کی شاعری نے کیا۔
مفکر اسلام علامہ ظہیر شہید رحمہ اللہ جب بھی مولانا ظفر علی خاں کا تذکرہ فرماتے تو انھیں ضیغم ملت اور ظفر الملت کے لقب سے پکارتے۔
مولانا ظفر علی خاں رحمہ اللہ صرف ایک بلند پایہ ادیب ہی نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے ایک زبردست ہیرو تھے۔ مولانا ظفر علی خاں رحمہ اللہ 1873 میں سیالکوٹ کے ایک گاؤں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وزیر آباد سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان پٹیالہ سے پاس کیا۔ مولانا ظفر علی خاں رحمہ اللہ نے علی گڑھ سے گریجویشن کی۔ گریجویشن سے قبل آپ نے کچھ عرصہ تعلیم ترک کر دی تھی اور محکمہ ڈاک میں ملازمت اختیار کرلی۔ آپ ہفتہ وار اخبار ” زمیندار” کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اخبار آپ کے آبائی شہر سے آپ کے والد محترم نکالتے تھے۔ 1909ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ظفر علی خاں رحمہ اللہ نے ادارت سنبھالی۔ اس کا دفتر لاہور منتقل کیا اور اسے روز نامہ بنا دیا۔ اور انھوں نے اس اخبار کو اپنی دینی و سیاسی سرگرمیوں اور قوم و ملت کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔ انگریز کی مخالفت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ہندوں کی عیاری کو بھی خوب بے نقاب کرتے، تمام اسلام دشمن عناصر کو آڑے ہاتھوں لیتے اور اپنے زمیندار میں ہر مذہب و ملت کے دشمن کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے۔آپ نہایت خلیق، ملنسار، شگفتہ مزاج اور بذلہ سنج خطیب تھے۔
سیاست میں بھی کافی مہارت حاصل تھی۔مولانا چراغ حسن حسرت ان کے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مولانا حقے کے رسیا تھے۔آپ حقے کا ایک کش لگاتے اور ایک شعر تخلیق کرتے۔ جب نظم پوری ہو جاتی تو ساتھیوں کو سناتے۔ حریت کی تڑپ رکھنے والے ایک دردمند شاعر تھے۔ وہ مسلمان کے خیر خواہ تھے اور مسلمانوں کی آزادی کا انھیں اس قدر یقین تھا کہ اپنے ایک شعر میں اس کا اظہار یوں کرتے ہیں..
وہ دن آنے کو ہے آزاد جب ہندوستان ہو گا۔
مبارکباد اسکو دے رہا سارا جہان ہو گا۔
زمین والوں کے سر اس کے آگے ہوں گے خم۔
سلامی دے رہا اس کو جھک کر آسمان ہو گا۔
اسی آزادی کی نعمت کے حصول کے لیے وہ ہندؤں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے اسلامی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے تحریک خلافت میں حصہ لیا۔لیکن بہت جلد ان پر ہندو ذہنیت منکشف ہو گئ۔چونکہ مولانا ہر مخلص لیڈر کی طرح حق گوئی کے علم بردار تھے۔ اس لیے گاندھی جی( جو اس وقت انگریز سے آزادی کے لیے تحریک خلافت میں شامل تھے) سے یوں مخاطب ہوئے۔
بھارت میں بلائیں دو ہی ہیں ایک سادرکر ایک گاندھی ہے
ایک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے ایک مکر کی اٹھتی آندھی ہے۔
لب پہ صدا آزادی کی ، دل میں شور غلامی کا۔
اکھڑی تھی ہوا انگریزوں کی ان دونوں نے مل کر باندھی ہے۔
مولانا ظفر علی خاں رحمہ اللہ کا دل عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے موجزن تھا۔ آپ کو نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نعتیہ کلام آپ کے کلام کا نمایاں حصہ ہے اور ان کی اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا نتیجہ ہی تھا کہ جب ملعون قادیانی نے آقائے دو جہاں کی نبوت پہ ڈاکہ ڈالا تو مولانا تڑپ اٹھے اور اپنے اخبار “زمیندار” کے ذریعے قادیانیت کے پر خچے اڑا دئیے۔اپنے قلم اور زبان کے ذریعے مرزا قادیانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انگریز کی نفرت تو پہلے ہی تھی اب ان کا دوسرا ہدف قادیانی بن گئے۔ جس کی وجہ سے مولانا ظفر علی خاں رحمہ اللہ کو کچھ مشکل حالات سے بھی دو چار ہونا پڑا۔لیکن اس محب رسول کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہ ڈال سکی۔
آزادی وطن اور ختم نبوت کے اس ہیرو، شاعر رسول و ملت اسلامیہ کو مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ نے یوں خراج عقیدت پیش کیا۔
فرماتے ہیں: اگر مولانا عربی میں قلم اٹھاتے تو حریری و ہمدانی ہوتے، فارسی میں لکھتے تو ابو الفضل اور فیضی ان کی نگارشات پر سر دھنتے اور انگریزی میں طبع آزمائی کرتے تو ایڈیسن اور میکالے سے کیا کم رتبہ پاتے۔
آخر میں مولانا ظفر علی خاں رحمہ اللہ کی ایک نظم کے اشعار پیش خدمت ہیں جو آج بھی امت مسلمہ کو جھنجھوڑ رہے ہیں اور انقلاب کا پیام دے رہے ہیں۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
باطل کی کو ششیں ہے کہ مٹ جائے حق مگر
خورشید بادلوں سے چھپایا نہ جائے گا۔
کہہ دو انھیں سنا کہ یستخلفنکم۔
تقدیر کا نشاں مٹایا نہ جائے گا۔
مسلم ہوں غلام ہیں شمس و قمر میرے۔
اپنا یہ درجہ مجھ سے گھٹایا نہ جائے گا۔
میں جس نوائے تلخ سے مدہوش تھا کبھی۔
کیا وہ نغمہ پھر مجھ کو سنایا نہ جائے گا۔
یہ عظیم شاعر اور ادیب 1958ء میں اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔ اور ان کو وزیر آباد میں سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین