یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تاریخ اسلام کی تابانیوں کو دوام بخشنے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لگائے ہوئے اسلام کے پودے کو تناور درخت بنانے اور اسے پوری دنیا تک پھیلانے کے لیے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے ساتھیوں، تابعین اور تبع تابعین سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ علمائے حق کے ذمے ٹھہرا۔ اور یہ عظیم علماء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے انبیاء کے وارث قرار پائے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بلوغ المرام من ادلة الأحكام الشریعہ کے مقدمہ میں یہ خوب صورت فرمان لائے ہیں”
العلماء ورثه الانبياء، اكرم بهم وارثا و موروثا.
علماء انبیاء کے وارث ہیں۔اور کیا خوب ہیں یہ وارث اور کتنا خوب صورت اور عمدہ ہے یہ ورثہ۔۔
قارئین کرام!! آج مجھے انہی خوبصورت الفاظ کا خوبصورت انداز میں ترجمہ کرنے والی، اور انہی الفاظ کی مصداق ہستی کے بارے میں لکھنا ہے۔
کسی شاعر نے ان جیسی ہستیوں کے بارے میں خوب فرمایا ہے:
یہی وارثانِ نبی ہیں جنہوں نے دکھا یا ہے دنیا کو نور ہدایت۔
وگرنہ یہاں کفر کا راج ہوتا، زمیں پر کہیں اہل ایماں نہ ہوتے۔
وارث خیر الانام کا لقب پانے والے، اپنی تمام زندگی حصول علم اور تحقیق و مطالعہ میں گزارنے والی شخصیات پر لکھنا اگرچہ بہت مشکل کام ہے لیکن یہ صرف خراج تحسین پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
قارئین کرام!! میرا آج کا انتخاب ہیں۔ “جامع علم و عمل مولانا عبد الوکیل علوی رحمہ اللہ”
تحقیق و مطالعہ کے یہ مجسم پیکر 1941 میں پیدا ہوئے والد گرامی کا نام محترم عبداللہ علو ی تھا۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کی عمر سات سال تھی۔ اپنے نانا محترم کے ساتھ اس کم عمری میں ہجرت کی ۔کچھ عرصہ سندھ میں ٹھہرنے کے بعد پنجاب تشریف لائے۔ اور 135/10R جہانیاں میں سکو نت اختیار کی۔ اور حصول تعلیم کے لیے کوشاں ہو گئے۔۔آپ نے یہاں سے مڈل، کا امتحان پاس کیا، اور بعد ازاں میڑک، ایف، اے اور فاضل عربی کا امتحان ملتان بورڈ سے پاس کیا۔ اور پھر جامعہ اسلامیہ بہاولپور علمی حوالے سے ان کا مسکن بنا اور یہاں سے التخصص فی التاریخ الاسلام کے بعد یہاں سے فارغ ہوئے اور اپنی علمی تشنگی کو بجھانے کے لیے مختلف دینی درسگاہوں سے تحصیل علم کے لیے کوشاں رہے۔ جن میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد، جامعہ مدینہ لاہور اور جامعہ محمدیہ جلال پور پیر والہ شامل ہیں۔ علوم اسلامیہ میں ڈگری اور شھادة التفسير والحديث میں ڈگری دارالعلوم جامعہ اہل حدیث السلفیہ لاہور سے حاصل کی۔ اور الاجازہ للتفسیر والحدیث جامعہ اسلامیہ بہاولپور سے مولانا شمس الحق افغانی سے حاصل کی۔پھر آپ نے جامعہ پنجاب لاہور کا رخ کیا۔ یہاں سے ایم۔ اے عربی کا امتحان پاس کیا۔اور آپ نے یہیں سے ایم۔اے اسلامیات کا امتحان بھی پاس کیا۔
آپ نے جامعہ پنجاب لاہور سے ایم او ایل کی ڈگری بھی حاصل کی۔ تحقیق کے شائق اور علم کی لگن رکھنے والے مولانا علوی رحمہ اللہ کو دو مرتبہ سند امتیاز سے نوازا گیا۔ ایک سند امتیاز پروفیسر عنایت اللہ صاحب ( مترجم ابن خلدون) شعبہ تاریخ اسلام جامعہ بہاولپور سے حاصل کی جبکہ دوسری اورئینٹل کالج لاہور سے حاصل کی۔
اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس سے کیا اور پھر اپنے علمی اور تحقیقی ذوق کی وجہ سے تحقیق و تالیف میں مشغول ہو گئے جو تاحیات جاری رہا۔ آپ جماعت اسلامی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ تھے۔ اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے تحقیق و تالیف کا ایک وسیع ذخیرہ جمع کیا۔
آپ نظریاتی اور عملی طور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ، متبحر علم مولانا ابوالکلام ازاد، شاہ ولی اللہ دہلوی اور سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمھم اللہ جیسی علمی شخصیات سے بے حد متاثر تھے۔
تمام عمر ادارہ معارف اسلامی ، منصورہ لاہور میں بطور ریسرچ سکالر کام کرتے رہے۔ وفات سے تقریباً دو سال قبل طبیعت کی علالت کی بنا پر ادارہ سے مستعفی ہو گئے۔ ان کے علمی شغف، ، خداداد تحقیقی صلاحیتوں، اور کتاب و قلم سے مضبوط رشتے کو دیکھا جائے تو شاعر کی یہ بات ان پر خوب صادر آتی ہے۔
ایک چراغ ، ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ ہے اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے۔
آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا عبد الغفار حسن، مولانا سلطان محمود اور مولانا عبد الحمید آف جلال پور پیر والا ہیں۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا عبداللہ روپڑی اور مولانا محمد شریف سواتی رحمھم اللہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کیا۔ مولانا احمد اللہ اور احمد علی لاہوری کی علمی مجالس اور دروس سے فائدہ اٹھایا نیز پروفیسر غلام احمد حریری آف جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے بھی اکتساب فیض کیا۔
آپ رشتہ ازدوج میں منسلک ہوئے تو بھی بہت سعادت مند ٹھہرے۔آپ کی شادی محقق وقت اور مفسر قرآن مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی صاحبزادی محترمہ ثریا بتول علوی سے ہوئی۔ نیک سیرت اور باعمل عظیم باپ کی یہ صاحبزادی دین و دنیا کی تعلیم سے مالامال ہیں۔
گولڈ میڈلسٹ ہونے کے ساتھ بہت سی کتابوں اور کتابچوں کی مصنفہ ہیں۔ سمن آباد کالج میں بطور ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ انھوں نے کئی کتب لکھیں۔ اربعین للنساء من احادیث المصطفیٰ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوب صورت کتاب ہے اور ان کی کچھ کتابیں محدث لائبریری (آن لائن) کی بھی زینت ہیں۔الحمدللہ۔
رب العزت نے مولانا رحمہ اللہ کو تین بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا۔ سب اللہ کے فضل سے اپنے دائرہ کار میں دین حنیف کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ایک صاحبزادی محترمہ ام سعد ہیں ان کو علم و عمل کے شیدائی اپنے وقت کے ولی کامل مولانا محمد یوسف راجوالوی رحمہ اللہ کی بہو بننے کا اعزاز حاصل ہے۔وہ پی ایچ ڈی کی سطح تک تعلیم حاصل کر چکی ہیں اور اس وقت مولانا یوسف راجوالوی رحمہ اللہ کے لگائے ہوئے اسلام کے پودے (خواتین کے جامعہ اور کالج) کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں۔
آپ زندگی بھر شعبہ تحقیق سے منسلک رہے اور درج ذیل کام کیے۔
سیرت سرور عالم پہ کام کیا۔
جو ادارہ ترجمان القرآن لاہور سے پبلش ہوئی۔ یہودیت و نصرانیت دوسو صفحات پر مشتمل یہ کتاب انڈیا سے دو جلدوں میں طبع ہوئی۔
آپ کے ان تحقیقی کاموں میں تذکرہ انبیاء و رسل اور اسماء الحسنٰی نامی کتابیں بھی ہیں۔
مولانا رحمہ اللہ نے شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کے موضع القرآن کی روشنی میں آیت وار تشریحی ترجمہ بھی مرتب کی۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تفہیم الاحادیث پر آپ نے برس ہا برس کام کیا اور اسے آٹھ جلدوں میں مرتب کیا۔
اور اس سلسلے میں آپ کا سب سے خوب صورت کارنامہ بلوغ المرام (من ادلہ الاحکام الشریعہ) مع تشریح مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کا خوب صورت انداز میں ترجمہ کیا جو ان کی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کے علاوہ مختلف اسلامی رسائل و جرائد میں بھی آپ کے مضامین مختلف موضوعات پر طبع ہوئے۔ تبصرہ کتب کے حوالے سے بھی آپ نے کام کیا۔
اور حکومت پاکستان کے رجسٹرڈ پروف ریڈر کی حیثیت سے لاہور کے اداروں کے شائع کردہ قرآن حکیم کی کمپوزنگ اور تصحیح بھی فرماتے رہے۔
ذوق علم سے آشنا اور تحقیق کی دلدادہ اس ہستی نے اپنی مختصر علالت کے بعد شہر لاہور میں ہسپتال کے بستر پر کلمہ شہادت کے ورد کے ساتھ انتقال فرمایا۔ یوں ان کی موت بھی زندگی کی طرح الحمدللہ سعادت مند ٹھہری۔ قرآن حکیم کی تلاوت، اذکار اور نمازوں کی پابندی ایام علالت میں بھی آپ کا معمول رہی۔ 11 جنوری 2016 کو انتقال فرمایا اور ان کی نماز جنازہ ان کے داماد، وقت کے محدث، علم کے پیامبر مولانا یوسف راجوالوی رحمہ اللہ جیسے عظیم باپ کے عظیم بیٹے فضیلة الشیخ ڈاکٹر عبید الرحمن محسن صاحب دامت بر کاتہم العالیہ نے انتہائی رقت آمیز لہجے میں پڑھائی۔ عینی شاہدین کے بقول نماز جنازہ میں حرمین شریفین کے جنازوں کا سا سماں بندھ گیا۔ اور آہوں اور سسکیوں کے اس ہجوم میں اس ثقہ بند عالم کو سپرد خاک کیا گیا۔
انا لله و انا اليه رجعون.
مخموردہلوی نے کیا خوب کہا ہے۔
جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں.