مظلوم مدینہ سیدنا عثمان غنی ؓ

سوال مدح اصحاب کا ہو تو یونہی ذکر ہوجاتا ہے، مگر جب بات عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی ہو تو لازم ہے دائرہ ادب و عشق بنایا جائے، زبان کو پاک و صاف کر کے انکی “حیا” کا تذکرہ کیا جائے جس سے اللہ کے معصوم فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔

مدحت چار اصحاب ہو اور ذکر عثمانی نا ہو، تو ذکر صدیقی ، ذکر عمر، ذکر علی نامکمل ہے۔

میں قربان جاؤں میرے آقا پر۔ یہ میرے آقا کے گھر کو پاک و مبارک جنت کی چوکھٹ جیسے گھر پر علی الصبح رونق اتری ہے، نبی کریم بیدار ہوتے ہیں، نبی کریم کی پنڈلی مبارک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا، نور کے باڑے بٹ رہے ہیں، ایسے میں صدیق آتے ہیں، (رضی اللہ تعالی عنہ) رسول اللہ یونہی ان سے بغل گیر ہوکر پہلو میں جگہ دیتے ہیں، بعد از صدیق عمر آئے رسول اللہ یونہی ان سے بھی مصافحہ کر کے پاس بٹھا لیتے ہیں، یہ نوری محفل سجی ہوئی ہے ملائک کا جھرمٹ خوشی سے اس کائنات کے سب سے پاک و بلند مرتبہ، محبوب خدا کے یاروں کی محبت ملاحظہ کر رہے ہیں، کہ عثمان آتے ہیں۔
میں قربان جاؤں میرے آقا فرماتے ہیں، “رکو” پھر آقا نے جسم مبارک کو قمیص سے ڈھانپا اور عثمان رضی اللہ عنہ کو آنے کی اجازت دی۔
سوال کیا گیا کہ یہ خصوصی یہ ذی مرتبہ اہتمام کیوں؟ “بارگاہ محبت سے جواب آیا “کہ جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں، میں اس سے کیونکر نا حیا کروں؟”

اللہ اللہ قربان جائیے حضرت عثمان کی نیچی نگاہوں پر۔ ان حیا کے پیکر کو نبی کریم نے دو بیٹیاں عطا کر کے فرمایا “ذوالنورین” یعنی اے دو نوروں والے۔ پیارے نبی کی دو پاک بیٹیاں جن کے نکاح میں آئیں وہ حضرت عثمان ہیں۔ واللہ کیا محبت ہے، میرے آقا کہہ رہے ہیں عثمان کو اے “دو نوروں”والے۔۔ گویا میرے آقا خود عرش کا نور دنیا میں ہی اپنے محبوب یار کے سپرد کے کر اسے دو نوروں کی نوید سنا رہے ہیں۔

محبت یاراں ہو علی و عثمان صدیق و عمر جیسی ہو، کہ حضرت علی نے اپنے بچوں کے نام عمر صدیق و عثمان کے ناموں پر رکھے۔ میں کربلا کی سختیوں کا ذکر کروں اور حضرت عثمان پر پڑنے والی صعوبت کو چھوڑ دوں تو ذکر عشق و محبت نامکمل ہے، میں کربلا کے پیاسوں کا ذکر کروں اور نبی کے پیارے عثمان کی پیاس کا تذکرہ نا کروں تو تو میری تاریخ ادھوری ہے۔ میرا تذکرہ ادھورا ہے، میری محبت ادھوری ہے، میرا ایمان ادھورا ہے۔

میں اسلام کیلئے دی جانے والی قربانیوں ک ذکر کروں حضرت عثمان کا ذکر نا کروں تو انکے بغیر میرا ایمان نا مکمل ہے۔
کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا
تو مدینہ میں عثمانؓ کا ساقی علی تھے

میں ان تیروں کا ذکر کیوں نا کروں؟ جو حضرت عثمان کیلئے آنے والے مشکیزے پر برسائے گئے۔ جو حضرت عثمان کیلئے میرے اسد اللہ میرے علی شیر خدا لا رہے تھے۔ یہ وہ مبارک صحابی ہیں جن کی بیعت کیلئے نبی کریم نے اپنا دست مبارک پیش کیا۔ جن کی بیعت میرے رسول اللہ نے خود لی۔

امام اہلسنت علامہ عبدالشکور لکھنویؒ فرماتے ہیں:”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اس بیعت میں سب سے زیادہ حصہ رہا کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی”۔(خلفائے راشدین، ص 161)

وہ میرے نبی کے لاڈلے، وہ قرآن کے ناشر وہ حیا کے پیکر، جن کی بدولت اسلام کا عروج ممکن ہوسکا آج انکا دن ہے۔ کوئی بات نہیں اگر نہیں جانتے کہ 18ذی الحج کو حضرت عثمان شہید کردیئے گئے تھے۔

آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا
کوئی غم نہیں، اگر نہیں جانتے یقین جانو کوئی غم نہیں۔ یہ وہ مظلوم ہیں جنہیں برچھی مار مار کر شہید کیا گیا…مگر کہیں بھی اس شہادت کا نوحہ نہیں ملتا۔
کوئی غم نہیں حضرت عثمان کو، یہ تو اپنے ایمان کی کمزوری ہے۔ میری جان قربان ان چار اصحاب پر۔ آج انہی میں سے حضرت عثمان کا دن ہے انکی شہادت کا دن ہے، میری زبان خاک آلود ہوجائے اگر میں ذکر عثمان میں تکفیر کروں۔
آپ ‏‎خاندان قریش کے باعزت لوگوں میں سے تھے۔ ثروت و سخاوت میں ثانی نہ رکھتے تھے اور پیکر حمیت و حیاء تب بھی تھے ۔ گھر کے اندر بھی دروازہ بند کرکے نہانے کے لئے کپڑے اتارتے تھے اور کبھی کھڑے ہو کے نہ نہاتے تھے۔‏‎بت پرستی اور شرک سے بے زار تھے اور کبھی شراب نہیں پی۔ اس صفت میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ممتاز ہیں۔

تاریخ کھنگال کر دیکھی ہے مجھے ایسی حیا و معصومیت اسلام سے اتنی والہانہ محبت کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے ایسا جذبہ نہیں ملتا کہ آپ کے چچا حکم بن عاص نے آپ کو رسی سے مضبوط باندھ کر کہا : ‏‎”تم نے اپنے باپ دادا کا دین ترک کرکے نیا دین اختیار کیا ہے۔ اللہ کی قسم میں تم کو نہ کھولوں گا یہاں تک کے تم اس نئے دین کو ترک نہ کر دو”۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواباََ فرمایا: ‏‎”اللہ کی قسم میں دین اسلام کبھی ترک نہ کروں گا”۔
‏‎آپ کی استقامت دیکھ کر چچا عاجز آگئے اور آپکو رہا کر دیا۔ (تاریخ الخلفاء)۔

‏‎آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں بہ نفس نفیس شریک رہے ۔ غزوۂ بدرکے موقع پر نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی اور آپ کی زوجہ مطہرہ سیدہ رقیہ سلام اللہ علیہا چونکہ علیل تھیں اس لئے سید عالم ﷺ نے حضرت ذوالنورین سے فرمایا: ‏‎”اے عثمان ! تم رقیہ کی تیمارداری کرو تم کو شرکت بدر کا ثواب ملے گا”۔

نبی کریم ﷺ نے ان کو بدریوں میں شمار فرمایا اور بدر کے مال غنیمت سے ان کو حصہ عطا فرمایا۔ چالیس دن تک بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کرنے والے مظلوم مدینہ پر رحمت ہر انکے صدقے ہماری مغفرت ہو۔

سیدنا عثمان غنی کے بارے میں مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

مظلوم مدینہ سیدنا عثمان غنی ؓ” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں