عورت ہر معاملے میں مظلوم ہے، پیدا ہو تو بہو کا قصور گردانا جاتا ہے، سکول کالج کی عمر کو پہنچے تو راستے کے لونڈے سیٹیوں ، پٹاخوں اور ذلیل کرنے والے جملوں سے تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں ، رشتہ آئے تو بھیڑ بکریوں کی طرح سجا سنوارکے بٹھایا جاتا ہے اور “مہمان” جسمانی پیچ و خم یوں دیکھتے ہیں جیسے ذبح سے پہلے قصائی جانور کا معائنہ کرتا ہے۔اور پھر اکثر لوگ سیرت اور صورت پہ اعتراضات کے پلندے ڈال کر رشتہ سے انکار کر دیتے ہیں ،اگر کسی جگہ رشتہ ہوجائے تو جہیز کی وہ لمبی فہرست تھما دی جاتی ہے کہ لڑکی والوں کی زندگی اجیرن ہو جائے۔
جیسے تیسے کرکے شادی ہوجائے تو اسکے بعد کا جہان اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے، ایک سال تک بچہ نہ ہو تو بانجھ کا “لقب” اور اگر بیٹی ہوجائے تو طعنوں اور کوسنوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اگر ساس ، سسر، دیور اور دیورانیوں کی خدمت نہ کر پائے تو شوہر کی تیکھی نظروں اور کڑوے کسیلے جملوں کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے،اگر اتفاق سے شوہر چھوڑ دے تو طلاق کے کلنک سے معاشرہ ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے اور اگر خدا نہ کرے شوہر کی وفات ہوجائے تو بیوگی کا عذاب اپنی جگہ اس کے ساتھ ساتھ منحوس وجود کاطعنہ دے کر جیتے جی مار دیا جاتا ہے۔خیر سے زندگی گزری تو رہی سہی کسر بیوی کو زیادہ ترجیح دے کر اولاد پوری کر دیتی ہے۔۔
عورت کتنی مظلوم ہے؟
ملازمت مانگے تو جسم ناپا جاتا ہے۔ اگر ملازمت ہوجائے تو سٹاف کی نظروں سے چھلنی ہونا پڑتا ہے، معاشرتی اوباش سر راہ اٹھالیں کوئی پوچھنے والا نہیں، تار تار عصمت لے کر انصاف مانگنے کےلئے تھانے پہنچ جائے تو بچی کھچی عزت حوالات میں نیلام ہو جاتی ہے۔۔
سردار کاری قرار دے کر ماردیتا ہے ، جنسی ہوس کے لئے تیزاب گردی کا نشانہ بن جاتی ہے، ساس کے ظلم سے چولہا گردی کا شکار ہو جاتی ہے۔۔ گھر کے برتن مانجھ کر ،گندے کپڑے دھوکر دن رات کی خدمت کے بعد اسے ملتا کیا ہے محض دو وقت کھانا؟
آخر ہم لوگ ایسے بے حس کیوں ہیں ؟ ایسا کیوں ہے ؟
شیمپو کا ساشہ بیچنے کے لئے بھی عورت کا وجود چاہئے ، ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کی عیاشیاں بھی عورت کی ماڈلنگ سے ہی پوری ہوتی ہیں ،ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کے فروغ کے لئے عورت کا سہارا لیتی ہیں ۔مجبوری اسی عورت کو طوائف بنا دیتی ہے اور ضرورت اسے نمائش بننے پہ مجبور کر دیتی ہےجبکہ معاشرہ اسے عیاشی کا سامان سمجھتا ہے۔
حالانکہ اسلام نے اسے بے پناہ عزت اور مقام سے نوازا ہے، اس کی پیدائش کو رحمت قرار دیا، جوان ہوئی تو گھر کی آبرو کہلائی، شادی کرکے گھر کی ملکہ بنی ، اولاد ہوئی تو قدموں میں جنت بچھا دی ،اولاد کی پیدائش سے شادی تک کے مرحلے طے کر لئے تو شہادت کے مرتبہ پہ فائز کردیا۔
لیکن آج کی عورت کو جہاں اس بے حس معاشرہ نے جہنم کی طرف دھکیلا ہے وہیں کسی نہ کسی حد تک یہ عورت بھی اس کی ذمہ دار ہے یہ اپنے مقام کو بھلا بیٹھی ہے ، مصنوعی بناوٹوں میں وہ اپنا حقیقی حسن کھو چکی ہے۔ آج کا معاشرہ حوا کی اس مظلوم بیٹی کو جائز حق دینے لگ جائے اور وہ خود اپنا حقیقی مرتبہ پہچان لے تو آج بھی اس کی کوکھ سے نایاب گوہر پیدا ہو سکتے ہیں۔
تحریر؛ محترم جناب مفتی عبداللہ بن زبیر صاحب