قارئین کرام!! یہ ہماری تاریخ کا طرہ امتیاز ہے کہ اسلام کی تابانیوں کو دوام بخشنے کے لیے رب العالمین نے ایسے عظیم اور بلند کردار لوگ پیدا فرمائے جنہوں نے اپنے قلم، مال و جان ، اولاد اور حتی کہ جان تک کی پرواہ کیے بغیر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کیے رکھا۔ایسے عظیم لوگ میری تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔اور ان کی عظمت کے نقوش تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ مرتسم رہیں گے۔( ان شاءاللہ)
آج میں نے لکھنے کے لیے ایک ایسی ہی ہستی کا انتخاب کیا ہے جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعے جہاں قرآن حکیم کی آسان فہم، مفید اور فرقہ واریت سے بالا تر تفسیر لکھ کر امت مسلمہ پر احسان عظیم کیا ہے۔ وہاں ساتھ ہی ان کے قلم نے مذاہب باطلہ اور منکرین ِحدیث کا رد جس احسن انداز میں کیا ہے امت اسلامیہ ان کی اس مساعی کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔اور یہ بھی کہ کچھ لوگ فرد واحد ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے عزم اور کام میں ایک انجمن اور کارواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ شاعر نے یوں کیا ہے
ہے مجھ کو کوئی خطر تو اس امت سے ہے۔
جس کی خاکستر میں ہے ابھی تک شرار آرزو۔
ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ہماری جماعت کی مایہ ناز ہستی فضیلةالشیخ مبشر احمد ربانی دامت برکاتہم العالیہ یوں فرماتے ہیں:
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ جن کی علمی دیانت ، ثقاہت اور قرآن و سنت کی فقاہت اہل علم پر مخفی نہیں۔انہوں نے اپنی نوک قلم سے بیسیوں کتابیں مرتب کیں۔جن میں سے قرآن حکیم کی خدمت کے سلسلہ میں “مترادفات القرآن”اور تفسیر “تیسیرالقرآن” انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔اس تفسیر میں موصوف نے منہج سلف صالحین کو مد نظر رکھ کر بڑے ہی احسن پیرائے میں قرآنی آیات کے مطالب کو حل فرمایا ہے۔اور آیات صفات میں موولین کی تردید کی ہے۔قرآن حکیم کا وہی مطلب و مفہوم ذکر کرنے کی سعی جمیل کی ہے۔جو احادیث و آثار میں ملتا ہے۔اور اپنی ذہانت، فطانت اور روشن دماغی کو بروئے کار لاتے ہوئے عصر حاضر کے کئی فتنوں اور سر سید و پرویز جیسے منکرین حدیث کے غلط عقائد کا قلع قمع بھی کیا ہے۔احادیث صحیحہ کے ذریعے بہت سارے فقہی مسائل بھی درج فرمائے ہیں۔زبان میں میں انتہائی سلاست اور شستگی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مؤلف مرحوم کی زندہ جاوید تالیفات و تصنیفات کے گراں بہا ذخیرے کو ان کی بخشش کا ذریعہ بنائے۔اور اور مؤلف مرحوم، ان کے لواحقین اور راقم الحروف کو اپنی خصوصی رحمتوں اور برکت سے نوازے اور ہم سب کو جنت الفردوس میں
اکٹھا فرمائے۔آمین۔
قارئین کرام!! یہ ہیں وہ عظیم المرتبت ہستی جن پر لکھنے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میرے کمزور قلم میں طاقت نہیں اور نہ ہی میں اس کا حق ادا کر سکتی ہوں۔ یہ تحریر صرف عقیدت و محبت کا اظہار ہے۔ عالم اسلام کو علم کی کرنوں سے منور کرنے والا یہ سورج شہر گوجرانولہ کے گاؤں کیلیانوالہ جو کہ علی پور چھٹہ کے قریب ہے میں
11 نومبر1923 کو طلوع ہوا۔
مولانا مرحوم اپنے چار بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے اور بچپن سے ہی بہت ذمہ دار شخصیت تھے تعلیم کے ساتھ والد محترم کا ہاتھ بٹاتے ان کے کاروبار میں مدد کرتے اور بسا اوقات دوسروں کو تعلیم دے کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتے۔ ان کی رسمیں تعلیم ایف۔اے ہے۔گریجوایشن کی تیاری کی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر امتحان نہ دے سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قلم میں اتنی سلاست اور روانی دے رکھی تھی کہ آپ کی اعلی پائے کی نثراور تحقیق کی بدولت آپ کی کتب پی ایچ ڈی کے معیار کی ہیں۔ آپ انتہائی وضع دار، باوقار اور درویش منش انسان تھے۔ بہت زیادہ مال و دولت کے حاصل ہو جانے کے باوجود بھی ہمیشہ دنیاوی آلائشوں اور تکبر سے کوسوں دور تھے۔ سنت کے خوگر تھے ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد محکمہ فوج میں ملازمت اختیار کی۔ لیکن مولانا مرحوم اس ملازمت کو اس لیے جاری نہ رکھ سکے کہ وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چہرے پر سجانے کی اجازت نہ تھی۔ انھیں پروموشن اور پرکشش اضافے کے خواب دکھائے گئے مگر پھر بھی محبت رسول غالب ٹھہری اور وہ عشق رسول سے موجزن استعفیٰ کے بعد گھر واپس لوٹ آئے۔
بعد ازاں انھوں نے کتابت کا پیشہ اختیار کیا۔ 1947 سے 1965 تک بہترین ادارے فیروز سنز سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد قرآن حکیم کی کتابت کا آغاز کیا اور تاج کمپنی کے روح رواں رہے۔ کم و بیش پچاس کے قریب نسخے اپنے ہاتھوں سے تحریر فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے حج کی سعادت عطا فرمائی تو وہیں پر مکی سورتوں کی کتابت مسجد حرام میں اور مدنی سورتوں کی کتابت مدینة النبی اور مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترے پر فرمائی۔
کتابت جیسا باوقار ہنر خاندان کے بہت سے افراد کو سکھا کر باعزت روزی کمانے کے قابل بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے مال کی وسعت کے ساتھ نفس کی کشادگی بھی بے انتہا عطا فرمائی۔لوگوں کو روزگار سکھاتے، قرضہ حسنہ بھی دیتے اور اگر کوئی نہ دے سکتا تو واپس نہ لینا تمام عمر معمول رہا۔
1980 کے بعد تالیف و تصنیف میں مشغول ہو گئے اور اللہ کی توفیق سے اتنا بڑا سرمایہ امت مسلمہ کو عطا کر گئے جو بعض اوقات ادارے اور زیادہ افراد بھی نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کتابوں کی نشرو اشاعت کے لیے ایک ادارے مکتبةالسلام کی بنیاد رکھی۔ اس میں نشرو اشاعت سے متعلقہ تمام امور خود اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتے۔
ان کا یہ معروف ادارہ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محترم نجیب الرحمن کیلانی حفطہ اللہ بحسن و خوبی چلا رہے ہیں۔ اگر مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ ان خوش قسمت افراد میں سے ہیں جو اپنے پیچھے تینوں قسم کے صدقہ جاریہ چھوڑ کر جاتے ہیں۔ تصنیف و تالیف کی صورت بے پناہ ذخیرہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ انھوں نے تصنیف و تالیف کے میدان میں قدم رکھا تو علم و تحقیق کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے معاشرت، معیشت، سیاست، عقائد اور جدید دینی مسائل پر بہت خوب صورت انداز میں لکھا۔ ان کی تصانیف میں مترادفات القرآن، آئینہ پرویزیت، شریعت و طریقت، خلافت و جمہوریت، تجارت اور لین دین کے مسائل، عقل پرستی اور انکار معجزات، روح، عذاب قبر اور سماع موتی، الشمس والقمر بحسبان، احکام ستر و حجاب اور اسلام میں دولت کے مصارف ان کی جلیل القدر تصانیف ہیں جو رہتی دنیا تک عالم اسلام کے لیے ایک نعمت عظمی اور بیش بہا سرمایہ ہیں۔
ان کا سب سے عظیم کارنامہ قرآن حکیم کی عظیم تفسیر تیسیرالقرآن ہے۔ جو علوم و معارف کا مخزن ہونے کے ساتھ ہدایت و رہنمائی کا مستقل سر چشمہ ہے۔ اس عظیم تفسیر کی کتابت، ترجمہ اور کاوش سب کچھ ہمارے محترم ممدوح کی ذاتی ہے۔ وہ اس کو اپنی زندگی میں پبلش کروانا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ کرسکے اور اس کو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کی سعادت انکی اولاد کو نصیب ہوئی۔
اس کے علاوہ ان کے صدقہ جاریہ میں طالبات کی دینی و اسلامی تربیت کا بہترین ادارہ تدریس القرآن والحدیث للبنات لاہور ہے۔ جو اسلام کی ترویج و اشاعت میں کوشاں ہے اور مولانا رحمہ اللہ کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بھی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی عظیم اور لائق اولاد اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
مولانا مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے سعادت مند اولاد سے نوازا ہے جو دینی علوم سے آشنا اور ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ان کے پوتوں اور نواسوں میں اکثریت حفاظ کرام کی ہے۔ وہ خود بھی قرآن حکیم کے اکثر حصے کے حافظ تھے۔ تمام عمر قرآن وسنت کی محبت میں بسر کی، اولاد کی تربیت کے معاملہ میں کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ عالم اسلام کا یہ نامور محقق ، تشنگانِ علم کا ساقی اور علم و تحقیق کی کرنوں سے عالم اسلام کو منور کرنے والا یہ سورج 18 دسمبر 1995 کو غروب ہو گیا۔ اور سعادت اور خوش بختی کے کیا کہنے کہ عمر بھر نماز کی محبت میں گزارنے والے حالت سجدہ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
یہ رتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا کے مصداق ان کی موت بھی زندگی کی طرح مشعل راہ بن گئی۔ ان کے جانے سے علمی حلقے ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوئے اور جماعت ایک عظیم راہنما سے محروم ہوگئی۔ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ رحمة واسعة کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین