ماں قدرت کا انمول تحفہ

رب العزت نے انسان کو بے شمار اور لازوال نعمتوں سے نوازا۔ انتہائی خوبصورت انداز میں انسان کی تخلیق فرمائی۔ فرشتوں جیسی عظیم جماعت سے اس کو سجدہ کروا کہ تکریم کی معراج پر پہنچا دیا۔ شمس و قمر ، ستاروں اور سیاروں سے آراستہ کرکے آسمان کو انسان کے لیے خوبصورت چھت بنا دیا۔ زمین کو طرح طرح کے میووں ،پھلوں اجناس اور سبزے سے مزین کیا اور اسے بچھونا بنا دیا۔ اور سب سے بڑھ کر نعمت اسلام سے نوازا۔ حبیب خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پیغمبر عطا فرمائے۔ قرآن جیسی عظیم کتاب سے نواز کر ہمیں رحمت و تسکین کی دولت بھی عطا کر دی اور اس کتاب حکیم کو ہماری روحانی و جسمانی بیماریوں کے لیے نہ صرف شفا قرار دیابلکہ اس کے پڑھنے والے کو علوم و معارف کے خزانوں سے مالا مال کیا۔ اور ابدی کامیابی یعنی جھنم سے آزادی کی نوید بھی سنائی۔ الغرض قدرت کے ان انعامات اور احسانات کا ہم میں نہ تو قرض چکانے کی ہمت ہے۔ اور نہ ہی ہم ان ساری نعمتوں کو شمار کر سکتے ہیں۔ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں : و ان تعدوا نعمة اللہ و لا تحصوھا۔ “اور اگر تم ان نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم شمار نہیں کر سکتے”۔

ان سارے انعامات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے لیے اس کائنات میں تنہا زندگی گزارنا مشکل ہوتا اگر اللہ تعالیٰ اس کے لیے خوبصورت رشتے نہ بناتا۔ کبھی مشفق اور کریم والدین کی صورت میں، کبھی غمگسار بیوی اور شوہر کے روپ میں اور کبھی بہن، بھائیوں کے مضبوط اور پیار بھرے حصار کی شکل میں، اور کبھی بڑھاپے کی دہلیز پر فرمانبردار اولاد کے روپ میں پیدائش سے لے کر موت تک انسان ان رشتوں کی لڑی میں مالا کی طرح پرویا رہتا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمدلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اور ان کے اہم ہونے کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ رب کریم نے اپنے نام رحمن کے پہلے تین حرف ر ح م اس کو عطا کیے۔ ہر رشتہ اپنی جگہ ایک خاص اہمیت اور قدر و قیمت کا حامل ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کا عکاس بھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ جو تجھے توڑے گا میں بھی اسے توڑ دوں گا اور تجھے جوڑے گا میں بھی اسے جوڑوں گا۔ ان خوبصورت رشتوں کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اور ان کو نبھانے کے حوالے یہ فرمان ہی کافی ہے۔ لیکن ان رشتوں میں بھی والدین کا رشتہ سب سے قربت والا اور رحم والا ہے۔ اور اس عظیم رشتے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دعا بھی قرآن مجید میں نازل کی اور ایمان والوں کو سکھائی کہ وہ ان الفاظ میں اپنے والدین کے لیے التجا کریں۔رب العزت نے فرمایا:- “رب ارحمهما كما ربينى صغيرا”،، “اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا”۔

پھر ماں اور باپ میں سے بھی ایک ہستی ایسی ہے جو کہ قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ اور یہ وہ عظیم رشتہ ہے جو ہمارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حق دار ہے۔ اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: (اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا والد) ۔ بخاری: (5626) ،مسلم: (2548)

اسی ہستی کے بارے میں شاعر نے خوب کہا ہے:
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پر لکھا لفظ ماں رہنے دیا

لفظ ماں ہر درد کا درماں اور چاہتوں کا پیامبر ہے. اگر کائنات میں نظر دوڑائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ہستی سے مشفق رشتہ رب العزت نے کوئی تخلیق ہی نہیں کیا. رسول کائنات کے ارشاد گرامی”الجنة تحت أقدام الأمهات “، ” جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے” کے مطابق قدموں تلے جنت کا اعزاز رکھنے والی ہستی کا تذکرہ شاعر نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے؛
رسول اللہ نے ماں کے پیار کی ایسی مثال دی ہے
جنت اٹھا کر ماں کے قدموں میں ڈال دی ہے

ماں کی عظمت اور وقار صرف یہی نہیں کہ وہ اپنی اولاد کی جنت کی ضامن ہے بلکہ کائنات میں انسان کے رشتوں میں اگر کوئی لازوال رشتہ ہے تو صرف ماں کا ہے. دنیا کی ہر محبت اور تعلق میں کہیں نہ کہیں غرض آ جاتی ہے اور کہیں اغراض محبتوں پر غالب آ جاتی ہیں. اگر کوئی بے لوث محبت کا رشتہ ہے تو وہ صرف ماں کا ہے. جو ذاتی مفاد اور خواہشات سے بالاتر ہو کر محبتوں کے پھول اپنی اولاد پر نچھاور کرتی ہے. ماں محبتوں کی انمول داستان اور قدرت کی طرف سے ودیعت کیے گئے قیمتی رشتوں میں سے بیش قیمت تحفہ ہے

پیار کی یہ نایاب کہانی انسان کے وجود میں آنے سے پہلے شروع ہو کر زندگی کے آخری دم تک جاری و ساری رہتی ہے. اس سے بڑھ کر پیار محبت کا خزینہ کہاں سے ملے گا؟ اپنی ذات کو بھول کر، اپنے آرام کو تج کر کے اور اپنی تکالیف کو فراموش کر کے محبت کی شاہراہ پر چلتے ہی جانا اور اپنی اولاد کے دکھوں اور تکالیف کو اپنے دامن محبت میں سمیٹتے ہی چلے جانا یہ ایک ماں کا شیوہ ہے تابش نے خوب کہا ہے؛
اک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا ماں مجھے ڈر لگتا ہے

رب العزت سے دعا ہے کہ جن کے پاس یہ قیمتی متاع انھیں اس کی قدر کرنے کی توفیق دے اور جو اس سے محروم ہو گئے ہیں انھیں یہ توفیق دے کہ وہ اس مشفق ہستی کے لیے رب کریم سے بخشش کی دعا کرتے رہیں۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں