کیا دینی اداروں کے منتظمین ہامان ہیں؟

گزشتہ دنوں ایک موقر، فاضل بھائی کے قلم سے ایک بار پھر دینی مدارس کے منتظمین، جماعتی قائدین اور مساجد انتظامیہ کو فرعونیت، ہامانیت کا طعنہ دیا گیا، اور یہ جتلایا گیا کہ گویا پاکستان میں سب سے بڑا ظالم، بے رحم، کرپٹ یہی طبقہ ہے.
اس تحریر کو پڑھ کر دلی رنج ہوا، انتظار تھا کہ کوئی صاحب تو منتظمین کا دفاع کریں گے، لیکن
بسا آرزو کہ خاک شد،
بالآخر ایک پرانی تحریر کچھ اضافہ جات کے ساتھ پیش کررہا ہوں

1. اکثر دینی مدارس کے مہتمم علماء ہوتے ہیں اور اپنے معاصر مدرسین سے زیادہ تعلیمیافتہ اور باصلاحیت نہیں تویقینا ان کے برابر کے ضرور ہوتے ہیں، ہمارے نمایاں مدارس کی تو تقریبا یہی روایت ہے، بلکہ بعض مدارس کے مہتمم ہی وہاں کے شیخ الحدیث بھی ہوتے ہیں،
ہمارے نمایاں جامعات میں
جامعہ سلفیہ فیصل آباد ہے، اس کے منتطم ہمارے شیخ محترم چوہدری یاسین ظفر حفظہ اللہ، فاضل مدینہ یونیورسٹی ہیں، کہنہ مشق، بلا کے ذہین، بہترین داعی اور عظیم منتظم، ان سے 1994،میں عالم اسلام کے وسائل و مسائل پر چند لیکچر لیے تھے،اپنی مثال آپ تھے، میری دوسری مادر علمی مرکز التربیہ الاسلامیہ کے تو کیا ہی کہنے، وہ دن نہیں بھولتے جب ہم دودھ مکھن اور پراٹھے کا ناشتہ کرتے، وی، آئی، پی لنچ اور ڈنر، ہاں ماہانہ پانچ سو وظیفہ، 1996، میں اس پر مستزاد، فتح الباری، تحفہ، عون المعبود جیسی کتب بھی ہدیتا، اس کے مہتمم ہمارے مربی، ہمارے محسن، ہمارے شیخ، حافظ محمد شریف حفظہ اللہ ہیں ،بڑے ظالم ہیں، میں بیمار ہوا تو ایک دفعہ میرے پاؤں دباتے رہے، مرکز التربیہ سے اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد پہنچا تو چند ماہ تک وہاں بھی وظیفہ جاری رہا، ہم ان ظالم فرعونوں کا بدلہ عمر بھر نہیں چکا سکتا، انہوں نے ہماری نسلوں کو بھی اپنا مقروض کردیا ہے، فرعون جو ہوئے،،،، جامعہ رحمانیہ لاہور، کی خدمات کا ایک وسیع میدان ہے،
اس کے بانی و سرپرست، الشیخ الأصولی، الجلیل ،ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ ہیں ،ان کے وہ بھائی جو کاروبار کر رہے ہیں، لاہور اور کراچی میں فیکٹریوں کے مالک ہیں، اور جناب مہتمم کئی ملکوں کے سفر، دن رات کے جتن، کے باوجود درویشانہ زندگی بسر کررہے ہیں، اس بڑھاپے میں بھی ہروقت ایک ہی دھن سوار، جامعہ،،، جامعہ اور جامعہ،،، اس کے منصوبہ جات ترقی،،،، ان کے بھتیجے اربوں ماشاء اللہ کما رہے ہیں، کیونکہ وہ بزنس مین ہیں، اور انہی کے بیٹے سب ڈاکٹرز، حفاظ، بہترین صلاحیتوں کے مالک،،،ایک سے بڑھ کر ایک،،، لیکن اپنی تنخواہوں پر زیادہ سے زیادہ اپر مڈل کلاس، جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں،
ناقدین کو شکوہ ہے کہ مہتمم، اپنے مدرسین سے چوبیس میں سے پچیس گھنٹے کام لیتا ہے،اس مبالغہ آرائی کا جواب اگر اسی رنگ میں دیا جائے تو میں کہتا ہوں ایک حقیقی مہتمم، چوبیس میں سے اڑتالیس گھنٹے کام کرتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ کیوں کہ اس کا ہر لمحہ اک بار گراں کے نیچے دبا رہتا ہے،
***جامعہ القدس کے مہتمم روپڑی بزرگ ہیں، حضرت عبدالوہاب روپڑی، ام القری کے فاضل ہیں، مفسر ہیں، خطیب ہیں، مدرس بھی ہیں، اور چندے کی خاطر ایک ایک گاؤں اور ایک ایک دوکان پر، اپنا وقار اور مقام سب قربان کر کے چکر بھی لگاتے ہیں،
بھائی پھیرو، میں عظیم دینی مرکز کے سرپرست شیخ مسعود عالم، فاضل مدینہ یونیورسٹی، مہتمم جناب قاری صہیب صاحب فاضل مدینہ یونیورسٹی، مدیر جناب قاری ابراہیم صاحب فاضل مدینہ یونیورسٹی ہیں،
قاری صہیب صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسا مقام دیا ہے، اگر وہ ہامان بننا چاہتے تو سینکڑوں ملیں لگا چکے ہوتے اور کئی جاگیروں کے مالک ہوتے، لیکن ان پر بھی ادارے کی ترقی اور صرف دینی مشاریع ہی کی دھن سوار ہے، تکریم علماء کا یہ انداز کہ ادارے میں اساتذہ کو بہترین، رہائشیں اور سہولیات میسر ہیں، مدرسین کو کبھی عمرہ کرواتے ہیں تو کبھی موٹر سائیکل کی چابی تھماتے ہیں، کھبی مکان ان کے سپرد کرتے ہیں، تو کبھی میڈیکل کی مد میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ناقد محترم کو دعوت فکر ہے، 22ستمبر کو اجلاس میں آکر دیکھ لینا، یہ ہامان اپنے مدرسین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے،
جامعہ ابی بکر کراچی، الرحمہ انسٹیٹیوٹ، جامعہ امام بخاری سرگودھا، جامعہ محمد بن اسماعیل، گندھیاں اوتاڑ، اسلامک انسٹیٹیوٹ مہنتانوالہ، جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کس کس گلشن کا تذکرہ کروں،، یہاں کے سارے ہامان،، اپنی زندگیاں وقف کیے بیٹھے ہیں،،
2. کچھ اداروں کے منتظمین کاروباری لوگ ہوتے ہیں، یہ بھی بہت قابل قدر ہیں،
جامعہ بلال الاسلامیہ کے منتظم جناب میاں کاشف صاحب ہیں، اعظم مارکیٹ جہاں ایک مرلے کی قیمت کروڑوں میں ہے، اپنے اس پلازے میں سے تقریبا پانچ کنال ایک پورا فلور ادارے کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں، صرف بجلی کا بل گزشتہ ایک ماہ میں تقریبا بائیس لاکھ تھا، 24گھنٹے اے، سی اور جنریٹر کی ہمہ وقت سہولت، ملنسار ایسے کہ علماء کے جوتے اٹھانا بھی سعادت سمجھیں،
3. کچھ اداروں میں دینی و دنیاوی تعلیم ساتھ ساتھ چل رہی ہے ہمارے ضلع اوکاڑہ میں الفرقان کالج کے مہتمم پیارے بھائی پروفیسر عبدالماجد ہیں، ان کے طلبہ ہر سال بورڈ میں پوزیشن لیتے چلے آرہے ہیں، دس مرلے کی سادہ آبائی رہائش، اور ادارے کی خاطر سرکاری جاب کو خیر بادکہا،،، یہ ہامان ہیں، کیونکہ دینی ادارے کے مہتمم ہیں، اور پنجاب کالج کے مالک تو فرشتـے ہیں نا، کیونکہ ان کا دین سے کیا لینا دینا؟؟؟
4. ابو ہریرہ اکیڈمی والے میاں جمیل صاحب ایسے فرعون صفت ہیں کہ ہر سوموار، جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں، چار مرلے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں، کس کس کا نام لوں، مثبت سوچ ہو تو یہ لوگ وقت کے ولی محسوس ہوتے ہیں، اور اگر سوچ غصہ، جذباتیت اور زہریلے پروپیگنڈے کا کباڑ خانہ ہو تو یہ ہامان نظر آتے ہیں 4⃣سوشل میڈیا پر بعض جذباتی نوجوان اور ناعاقبت اندیش مدارس کی خیر خواہی کے نام پر سارا نزلہ مہتمم پر گرا رہے ہیں، آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دیں، تاکہ کسی ایک فریق کے ساتھ نا انصافی نہ ہو.
یہ الہ آباد کے ایک ادارہ کے مہتمم ہیں، سکول جاب، بہترین صلاحیتوں کے مالک مدرسہ کے بہتر انتظام وانصرام کی خاطر اپنی سرکاری ملازمت چھوڑی، مدرسہ کی مالی معاونت کے سلسلہ میں دوران سفر شہید ہوئے، ایک عرصہ ہوا مجھے معلوم پڑا ان کی بیوہ بیمار ہیں، عیادت کے لیے ان کے گھر گیا، گھر کی صورت حال اندر کے فقر وفاقہ کا پتا دے رہی تھی، الوداع ہوتے ہوئے بہت شرماتے شرماتے کچھ خدمت پیش کی اور عرض کی آپ بڑی بہن ہیں، چھوٹے بھائی کی یہ خدمت قبول فرما لینا، وہ گویا پھوٹ کر روپڑیں کہا، بیٹا میں بہت کسمپرسی کی حالت میں ہوں، کسی کو بتا بھی نہیں سکتی، آپ میرے بیٹے ہیں آپ نے بروقت مدد کی،،،،،،، چلیں عالم اور مدرس تو پھر مدرس ہوتا ہے، مہتمم بیچارے کو تو ہم علماء کی صف ہی سے نکال باہر کرتے ہیں نا، در در کی ٹھوکر یں کھا کر راتوں کوجاگ کر، اپنی اولاد تک کی بعض ضروریاتِ زندگی کو نظرانداز کرکے یہ مدرسہ کا منتظم، یہ ظالم نہ رعایت کا مستحق ہے، نہ شکریے کا اور نہ ہی کسی کلمہ خیر،
یہ مجموعہ علماء ہی کا ایک اجلاس تھا جس میں ایک نامور شیخ الحدیث نے سینکڑوں علماء کی موجودگی میں باتوں باتوں میں کسی کے دوش پر سوار ہو کرکہا تھا،جس قبرستان میں مہتمم سپرد خاک ہو میں اس کے قریب سے گزرنا گناہ سمجھتا ہوں، اور افسوس کہ بھری محفل میں کسی نے مہتمم کی عزت کو قابل دفاع نہ سمجھا
5. یہ کوٹ رادھا کشن کے ایک مہتمم ہیں کالج میں پروفیسر تھے، مدرسہ کی خاطر جاب کو خیر باد کہا، اور ایک رمضان میں میرے پاس اپنی ذات کے لیے سوال کرنے آئے میں انہیں بھی کبھی فراموش نہیں کرسکتا،،،
یہ ضلع اوکاڑہ ایک اور مہتمم ہیں جن کی وفات کے بعد اولاد کے پاس مکان تک نہیں، در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں. یہ تو وہ کہانیاں ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں،،،،،

بعض احباب مہتمم اور مدرسین کے معاشی تفاوت کا بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ان سے عرض ہے کہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے اکثر مدارس کے مہتمم اور مدرس یکساں طور پر مالی مشکلات سے دوچار ہیں،
بسا أوقات مہتمم اور مدرس کی ذاتی ونجی زندگی میں تفاوت اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ مہتمم زکوۃ وخيرات میں کرپشن کررہا ہے اور مدرس بیچارہ قابل رحم ہے، نہیں بلکہ وہ تفاوت کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے ایسے ہی جیسے ایک ہی ادارے کے اساتذہ کے بھی معاشی حالات مختلف ہوسکتے ہیں،،،،ایک مدرس صرف تدریسی فرائض سرانجام دے رہا ہے اور صرف ادارے سے تنخواہ حاصل کررہا ہے، جبکہ دوسرا مدرس ساتھ کسی مسجد میں امام وخطيب بھی ہے تو دونوں کے معاشی حالات برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟
اسی طرح بعض اداروں کے مہتمم خاندانی طور پر کاروباری ہیں، ان کا ذریعہ آمدن ذاتی ہوتا ہے،
6. بعض لوگوں کو مہتمم کی گاڑی پر بہت غصہ آتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مدرس نے سال بھر میں چند سفر کرنے ہیں، جبکہ مہتمم نے ہمہ وقت در در کی ٹھوکریں کھانی ہیں، میں ایسے مہتمم کو جانتا ہوں جو موٹر سائیکل پر کثرت سفر کی وجہ سے کمر کے مہروں کے مریض ہیں
متعدد مثالیں ایسی ہیں کہ مہتمم کی اس درد سر اور کثرتِ سفر کو دیکھتے ہوئے کچھ مخیر حضرات اپنی ذاتی گرہ سے مہتمم کے لیے گاڑی کا انتظام کردیتے ہیں،
جنہوں نے عمر بھر کوئی ادارہ قائم کیا نہ مشکلات سے آگاہ وہ فیس بک کی وال پہ مہتمم حضرات کو رگید کر اور اساتذہ کی قابل رحم حالت کو بیان کرتے ہوئے یہ ضرور سوچیں کہ اس تحریک کے اثرات کیا ہوں گے.؟

7. بعض لوگ مدرسین کرام کی تنخواہوں کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کمپیئر کرتے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دینی مدارس سرکاری ادارے نہیں ہیں، ان کو اپنے اپنے علاقے کے پرائیویٹ سکولز سے کمپیئر کریں، تب آنکھیں کھلیں گی اور پتا چلے گا دینی مدارس میں کیا خیر وبرکت ہے.
8. بعض لوگ دہائی دیتے ہیں 15000 میں ایک متوسط گھرانے کا بجٹ بنا کر دکھا دیں، سوال یہ ہے کہ آپ ہمیں مسجدوں کی اپیلوں، سفیروں، مسجدوں کے گلوں سے حاصل ہونے والی رقم سے مدرسے کا بجٹ بنا کر دکھا دیں. آپ بیس ہزار کوروتے ہیں اور مہتمم اس بات کوکہ بیس ہزار اللہ کرے شعبان تک دے سکیں اور اس میں ہمارے اساتذہ کرام کے سامنے ہمیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے
9. اساتذہ کی فلاح وبہبود اور پر کشش تنخواہیں کس مہتمم کی ترجیح اول نہ ہوتی ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاونین تعاون دیتے ہوئے پابند کرتے ہیں کہ یہ رقم طلبہ کی دعوت کےلیے ہے، بعض کہتے ہیں یہ مسجد کی فلاں ضرورت کے لیے ہے، ظاہر ہے ہمیں اس کے مطابق ہی کرنا ہوتا ہے. بعض احباب نے پانچ چھ لاکھ طلبہ کی پرتکلف دعوتوں پر خرچ کیا، جبکہ ادارے کے پاس آخری مہینوں میں تنخواہ دینے کو فنڈز نہیں تھے، قرض حسن لے کر ادا ہو رہی ہوتی ہیں، اس متبرع کی یہی ڈیمانڈ ہوتی یا نذر…
بعض دفعہ عالی شان عمارت دیکھ کر لوگ غلط فہمیاں پال لیتے ہیں کہ ان کے پاس بڑے فنڈز ہیں، حالانکہ وہ عالیشان عمارات بعض محسنین افراد یا اداروں نے بنوائی ہوتی ہیں اور وہ محسنین یا ادارے اپنے لیے صدقہ جاریہ کے متمنی ہوتے ہیں، اسی مقصود کے لیے وہ سرمایہ لگا رہے ہوتے ہیں، یہ زر کثیر صرف ایک ہی دفعہ وہ خرچ کرپاتے ہیں، جبکہ تنخواہوں کے لیے ماہانہ بنیادوں پر تعاون چاہیے ہوتا ہے، جس کے لیے ان کے اپنے حالات سازگار نہیں ہوتے یا پھر وہ آمادہ نہیں ہوتے،،، اس صورت حال میں مہتمم کا کیا قصور ہے یہی نا کہ جس مد کے لیے رقم آئی اس نے کامل ایمانداری سے اسی مد میں صرف کردی؟!
10. اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے کہ مہینے کے آخر میں مہتمم کاکیا حال ہوتا ہے، اور کس طرح تنخواہوں کا انتظام ہوتا ہے,؟ بالخصوص سال کے آخر میں مہتمم کے ساتھ کیا بیتتی ہےیہ درد کسی کو نہیں ہمارے بعض معاونین جو پندرہ سال پہلے سالانہ پانچ ہزار دیتے تھے اب بھی وہیں کھڑے ہیں،،،لیکن….. مہتمم نے تو بہر حال تنخواہوں میں سالانہ اضافہ کرنا ہے
اگر یہ فیس بکی دانشور اور ناقدین واقعی دینی مدارس کے ساتھ مخلص ہیں تو کسی ایک فریق مدرس یا مہتمم کو باہم دشمن باور کرانے کی بجائے اس سماج کا رونا روئیں جو مدارس کی خدمت میں بخل سے کام لیتا ہے، یا کسی ایک ادارے کے کوائف لے کر وہاں کے مدرسین کی مثالی تنخواہوں، رہائش گا ہوں، اور پنشن کی ذمہ داری لے لیں، اس پورے تعاون کا آڈٹ بھی اپنے ذمے رکھیں، سارے دینی مدارس نہیں، صرف ایک مدرسے کا اس انداز میں تعاون حاصل کرلیں،تو یہ ایک مثالی قدم ہوگا،،،، اور اس سے اندازہ ہوگا، کہ آپ مدارس کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟ محض دو ایک مدرسین کا رونا رونا ، مہتمم کوبدنام کرنا، مدارس کی زبوں حالی کے مرثیے لکھنا اور وہ فیس بک کی وال پر یہ دیکھے بغیر کہ اس کے اثرات کیا ہیں، کوئی خیر کا کام نہیں، بلکہ اگر اس سے دوچار لوگوں کا بھلا ہو بھی جائے، تو بھی ہماری نگاہوں میں اثمہما اکبر من نفعہما کا مصداق ہے.
11. مدرسین پر بوجھ کی بات کی گئی اور ایسی مبالغہ آرائی کہ الامان و الحفیظ
مدارس، دنیا کا واحد ایسا تعلیمی نظام ہے جو اپنے اساتذہ کرام اور طلبہ کو رہائش اور کھانا حسب استطاعت فراہم کرتا ہے، اکثر طلبہ ہاسٹلائزڈ ہوتے ہیں، اس وجہ سے جو اساتذہ ہاسٹل میں رہتے ہیں ان کی تربیتی مجبوری کے پیش نظر اضافی ذمہ داریاں لگائی جاتی ہیں، کچھ اساتذہ ہاسٹل میں نہیں رہتے ان کے ڈیوٹی آورز طے ہوتے ہیں، بلکہ بزرگ اور سینئر اساتذہ کو ڈیوٹی آورز می میں خصوصی سہولت دی جاتی ہے
، بہت سارے مدرسین تدریس کے ساتھ ٹیوشن، خطابت، دروس، امامت ،تصنیف وتالیف، رقیہ شرعیہ اور دیگر اضافی نجی قسم کی مصروفیات رکھتے ہیں، یہ کہنا کہ تمام مدرسین چوبیس گھنٹوں میں سے پچیس گھنٹے جاب کرتے ہیں، مبالغے اور منفی پروپیگنڈے کی حد ہے، البتہ جن اساتذہ کو رہائش، کھانا، بجلی کابل اور ایسی سہولیات میسر ہوں، عموما ان کے ذمے اضافی تربیتی و تعلیمی ذمہ داریاں ہوتی ہیں،
12. رہائش خالی کروانا، اسے بھی ایک ظلم گردانا گیا، یہ تو ہر ادارے کی مجبوری ہوتی ہے، رہائشیں پہلے ہی ناکافی ہوتی ہیں،جب استاد گرامی تدریسی منصب سے فارغ ہو گا تو اسے رہائش ادارے کے نئے اساتذہ کے لیے فارغ کرنا ہوگی، البتہ صاحب استطاعت مدارس کو ایسا نظام بنانا چاہیے کہ پچیس، تیس سالہ سروس دینے والے شیخ مکرم کے لیے ریٹائرمنٹ کے وقت کوئی متبادل انتظام ہو یا اتنی رقم ہو کہ وہ کچھ کر سکے.
13. ریٹائر منٹ کو بھی فرعونی نظام کا ظلم کہا گیا، حالانکہ عمر کے تقاضوں کے ساتھ ریٹائرمنٹ ایک بدیہی حقیقت ہے، البتہ دینی مدارس کو ریٹائر منٹ کے ساتھ پنشن وغیرہ پر ضرور توجہ کرنی چاہیے اور اس کا کوئی لائحہ عمل طے کر لینا چاہیے.

اعتراف حقیقت
یقینا مدارس بہت ساری مشکلات سے دوچار ہیں، مجھے ان سے انکار نہیں، یہاں ہر پہلو میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے اس کا ادراک ہے اور اعتراف بھی
مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے ان اصلاحات کے لیے مدرس اور مہتمم کو دو فریق بنا کر پیش کرنا کیا ضروری ہے؟ اور وہ بھی پبلک فورم پر، اصل معاملہ نظام وضع کرنے، میکانزم، انفراسٹرکچر اور بنیادی ضابطہ اخلاق طے کرنے کا ہے، بدقسمتی کے ساتھ جو کسی بھی طرح منظم ہے نہ طے شدہ اور خود اس کے پیچھے بھی دینی مدارس کو درپیش معاشی مسائل اہم وجہ ہیں. کچھ ہمارے مہربان تبصرے یوں کرتے ہیں، جیسے مہتمم حضرات کی تجوریاں بھری پڑی ہیں، دولت کا سیلاب آیا پڑا ہے، روپے جیبوں سے باہر اچھل رہے ہیں، وہ رات سوتے ہیں تو صبح ان کے گھروں میں سونا آگا ہوتا ہے، لیکن یہ ظالم ہامان وقارون اور فرعون بن کر سارے خزانوں کو اپنے گھر لے جاتے ہیں اور مدرسین کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں، ہمارے یہ نادان مہربان
مجموعی طور پر پاکستان کی معاشی صورتحال اور یہاں ہر شعبہ تعلیم کو درپیش مسائل نظر انداز کردیتے ہیں، ہم ایک ایسے ماحول میں ہیں، جہاں مزدور کی ماہانہ آمدن کم ازکم بیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور پرائیویٹ سکول میں ایم اے پاس ٹیچر کی تنخواہ دس ہزار، جہاں پی. ایچ ڈی لوگ فارغ پھر رہے، جہاں کے متعددپرائیویٹ سکولز میں ایک بعض ایم اے پاس فیمیل ٹیچرز کی تنخواہ چار ہزار سے متجاوز نہیں، یہاں مجموعی طور پر تعلیم کا شعبہ قابل رحم ہے اور دینی تعلیم کا شعبہ بالخصوص کچھ زیادہ ہی قابل رحم، اس لیے بیچارے مہتمم کو معاف کرتے ہوئے مدرسین کرام اور دینی اداروں کی بہتری کے لئے جو کرسکتے ہیں کریں، جو لکھ سکتے ہیں لکھیں. مدرسین اور مہتمم ایک ہی منزل کے راہی اور ایک ہی ہدف کے پیرو ہیں، ان کو ظالم مظلوم بنا کر پیش مت کیجیے،
بھلا ہو ترے مخبروں کا مگر
مرا حال خود بھی کبھی دیکھ جا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں