“ماسٹر صاحب! آپ سے ماسک سلائی کروانے ہیں؟ کیا آپ چہرے کے ماسک تیار کرلیتے ہیں؟” عبداللہ صاحب نے ٹیلر ماسٹر رمضان کو مخاطب کر کے سلام دعا کے بعد پوچھا۔
“کیوں نہیں شیخ صاحب! آپ کو ان شاءاللہ بہترین ماسک بر وقت تیار کرکے دیں گے؟” ٹیلر ماسٹر رضوان نے مسکرا کر جواب دیا
“ماسٹر صاحب! یہ میرے پاس نمونے کے لیے ماسک ہے۔ آپ اسے ماڈل ماسک سمجھ لیں۔ اس کے مطابق سارے ماسک سلائی کرکے تیار کرنے ہیں۔ ایک گز کپڑے میں اندازاً کتنے ماسک تیار ہو جائیں گے؟” عبداللہ صاحب نے انکی طرف ماسک بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
“شیخ صاحب! یہ تو اب کپڑے کی کٹنگ کرکے صحیح اندازہ ہوگا۔ کیونکہ یہ نئے انداز کا ماسک ہے جو آپ نے ماڈل ماسک دکھایا ہے۔ اسکے مطابق میں پہلی مرتبہ اس نئے ڈیزائن کے ماسک تیار کروں گا۔ مختلف سائز کے چھوٹے، بڑے جیسے آپ کہیں گے۔لیکن آپ تسلی رکھیں۔ ان شاءاللہ آپکی پسند کی بہترین چیز تیار ہوگی۔”
عبداللہ صاحب دینی و دنیاوی اعتبار سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عالم باعمل انسان تھے۔ جدید عصری علوم اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر انکو بھرپور مہارت حاصل تھی۔ درس و تدریس انکا اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ انٹرنیٹ پر آن لائن اسلامی یونیورسٹی میں ترجمہ و تفسیر القرآن اور علوم اسلامیہ کی دیگر آن لائن کلاسز پڑھاتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی اکثریت مغربی ممالک برطانیہ، امریکہ، جاپان، فرانس وغیرہ سے تعلق رکھتی تھی۔ آن لائن کلاسز کی تدریس کے علاوہ وہ بڑے اچھے ماسٹر ٹرینر بھی تھے اور آن لائن ٹریننگ کے علاوہ مختلف تعلیمی و غیر تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور سٹاف وغیرہ کو اپنے سسٹم کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ اور آن لائن کرنے کی ٹیکنیکل ٹریننگ دیتے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے علاقہ میں عوام الناس کی بھلائی کے لیے ایک فلاحی ہسپتال بنایا ہوا تھا جس میں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا تھا۔ اور اس ہسپتال کی ساری ذمہ داری انہوں نے اپنی مرضی سے، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی۔ بعض اوقات بڑے مشکل اور پیچیدہ مسائل انکو پریشان بھی کردیتے تھے لیکن وہ خوش دلی سے اس ذمہ داری کو نبھا رہے تھے۔
انکے موجودہ مقام کے پیچھے انکی بہت سی اچھی عادات، محنتیں اور کاوشیں تھیں جنھوں نے انکو اس حیثیت تک پہنچایا تھا مثلاً انکی دن رات کی ان تھک محنت، نئے چیلنج کو قبول کرنا اور اس کے مطابق معاملات کو حل کرنا، مشکلات ومصائب کو صبر واستقامت سے برداشت کرنا، توکل علی اللہ رکھنا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا، غریبوں سے ہمدردی کرنا، اور عوام کے فائدے کے لیے حسبِ حیثیت کچھ نہ کچھ عملی اقدامات کرتے رہنا، خود مشقت اٹھا کر دوسروں کو فائدہ پہنچانا وغیرہ۔
ایک دفعہ جب انکے فلاحی ہسپتال میں ڈاکٹروں اور مریضوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے فیس ماسک کی ضرورت پڑی تو انہوں نے بازار سے ریڈی میڈ ماسک خریدنے کے بجائے خود ماسک تیار کروانے کو ترجیح دی۔ اس کے لیے انہوں نے خود بازار جا کر دیکھ بھال کرکے حسب ضرورت کپڑا خریدا جو ان کو آغاز میں لگ بھگ سو روپے فی گز کے حساب سے ملا۔
یہ کرونا وائرس کی بیماری شروع ہونے سے چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ پاکستانی معاشرے میں تب ابھی فیس ماسک، سینی ٹائزر، ہینڈ واش، ہائڈرو کلورین، سماجی فاصلہ (social distance)، Isolation, Quarantine وغیرہ کی اصطلاحات، ان کی ضروریات، اور استعمال عام نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے ایک واقف کار ٹیلر ماسٹر سے رابطہ کرکے اسے ماڈل ماسک دکھا کر اس سے ماسک تیار کرنے کے بارے میں پوچھا۔ ٹیلر ماسٹر نے ہامی بھرلی تو انہوں نے اس سے ماسک سلوانے کے لیے معاملہ طے کرلیا۔ ٹیلر ماسٹر نے انکی ہدایات کے مطابق ماسک اچھے طریقے سے اور بروقت تیار کردیے۔ ایک گز کپڑے میں کئی ماسک تیار ہوگئے تھے۔
انہوں نے سوچا کہ “جیسے ماسک ہمارے ہسپتال کی مستقل ضرورت ہے، اسی طرح دیگر مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور مریضوں کے لیے بھی ضرورت ہو سکتی ہے۔” چناچہ اسکے بعد وہ ساتھ ساتھ مزید کپڑا خرید کر درزی سے ماسک تیار کروا لیتے جنھیں وہ حسب ضرورت مختلف ہسپتالوں اور میڈیکل سٹوروں کو سپلائی کر دیتے تھے۔ اور اس میں وہ ضرورت مندوں کا خیال رکھتے ہوئے سپلائی کا کچھ حصہ مفت دیتے تھے تاکہ وہ لوگ آگے غریبوں کو مفت ماسک مہیا کر سکیں۔
آغاز میں ایک ماسک تیار کرنے پر ان کی لاگت تقریباً دو روپے فی ماسک آتی تھی۔ جس کو وہ پانچ روپے میں بیچ دیتے تھے۔ یعنی ایک ماسک کے بدلے میں انہیں تین روپے منافع وصول ہوتا تھا۔ یہ وہ ماسک تھا جس کی قیمت کرونا وائرس کی بیماری سے پہلے پاکستان میں تقریباً پچیس تیس روپے ہوتی تھی۔ پھر پوری دنیا میں کرونا کی وبائی بیماری نے تہلکہ مچا دیا اور فروری 2020ء میں پاکستانی معاشرہ بھی اسکی لپیٹ میں آگیا۔ اور یہاں بھی احتیاطی تدابیر (SOPs) کے پیش نظر ماسک وغیرہ کا استعمال شروع ہوگیا اور اسکی اہمیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ لوگ ماسک کو اپنی زندگی کی بقا، حفاظت کا سامان، درد کا درماں اور نہ جانے کیا کچھ سمجھ کر دھڑا دھڑ خریدنے لگے۔ معاشرے میں ہرطرف فیس ماسک کا استعمال عام ہو گیا۔
عبداللہ صاحب اب یہ سوچ رہے تھے کہ اگر اس صورتحال میں ماسک کی تیاری کا کام کمرشل سطح پر شروع کر دیا جائے تو کیسا رہے گا؟ ماسک تیار کرنے والے ٹیلر ماسٹر رضوان نے بھی عبداللہ صاحب کو اس طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ” شیخ صاحب! اگر ہم ان حالات میں ماسک تیار کرنے کا کام کمرشل سطح پر شروع کردیں تو اسکے بارے میں آپکا کیا مشورہ ہے؟”
“بڑی اچھی بات ہے! میں بھی اس بارے میں غور وفکر کررہا ہوں۔” انہوں نے جواب دیا۔
“اگر آپ مجھے ماسک تیار کرنے کا میٹیریل فراہم کریں تو میں ماسک تیار کروں گا اور پھر انکو آگے سپلائی کرنا اور فروخت کرنا آپکی ذمہ داری ہوگی۔” ٹیلر ماسٹر نے اس سلسلے میں اپنا مائنڈ سیٹ انکے سامنے واضح کر دیا۔
عبداللہ صاحب نے معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کیا، استخارہ کیا اور پھر ٹیلر ماسٹر سےیہ معاہدہ طےکرلیا کہ “ماسک کے بزنس میں انکی تیاری کی ساری لاگت اور پھر انکی سپلائی اور فروخت کی تمام ذمہ داری میری ہو گی اور آپ مجھے ماسک تیار کرکے بروقت مہیا کریں گے۔”
ماسک کی تیاری میں استعمال ہونے والا کپڑا جو پہلے سو روپے گز میں فروخت ہو رہا تھا، اب پندرہ سو روپے گز تک پہنچ چکا تھا اور وقت کے ساتھ مزید مہنگا ہورہا تھا۔ انہوں نے ٹیلر ماسٹر کو حسبِ معاہدہ سارا سامان مہیا کردیا۔ پھر انہوں نے فیس بک پر بھی ماسک کی فروخت کا اشتہار لگا دیا کہ “ہمارے ہاں بہترین ماسک برائے فروخت موجود ہیں۔”
بہت جلد ایک بڑی اور معروف ماسک سپلائی کرنے والی کمپنی نے ان سے رابطہ کرکے انہیں لاہور میں اپنے آفس میں بلایا۔ وقت مقررہ پر عبداللہ صاحب وہاں پہنچ گئے جہاں دیگر کئی کمپنیوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی کمپنی والوں کو اپنے تیار کردہ ماسک کے نمونے دکھائے تو وہ انہیں پسند آگئے۔
“کیا آپ ایک دن میں کمپنی کو سوا لاکھ ماسک مہیا کر سکتے ہیں؟” انہوں نے عبداللہ صاحب سے سوال کیا۔
“یہ تعداد بہت زیادہ ہے اور ہم ایک دن میں اتنی زیادہ تعداد میں اتنے ماسک مہیا نہیں کر سکتے۔” انہوں نے جواب دیا۔
“کیا آپ ہمیں ایک لاکھ ماسک فی دن تیار کرکے دے سکتے ہیں؟” کمپنی والوں نے ان سے پھر پوچھا تو انہوں نے انکار کردیا۔
“کیا آپ پچاس ہزار ماسک فی دن ہمیں مہیا کر سکیں گے؟” کمپنی والوں نے تعداد میں مزید کمی کرتے ہوئے ان سے پوچھا۔
“یہ تعداد بھی ہمارے لیے زیادہ ہے۔” انہوں نے جواب دیا۔
“کیا آپ ہمیں پچیس ہزار ماسک فی دن مہیا کر سکیں گے؟”کمپنی والوں نے پھر پوچھا تو انہوں نے اس کو تسلیم کر کے ان سے ڈیلنگ کرلی اور کہا کہ
“پچیس ہزار ماسک فی دن تیار کرکے آپ تک پہنچانے کی ہماری ڈیلنگ تو طے ہے۔ اور ہم ان شاءاللہ ہر روز یہ مہیا کریں گے۔ تاہم اگر ہمارے لیے اس سے زیادہ تعداد میں ماسک مہیا کرنا ممکن ہو سکا تو ہم وہ بھی ان شاءاللہ مہیا کریں گے۔” چنانچہ عبداللہ صاحب اور کمپنی کے درمیان یہ معاہدہ فائنل ہو گیا۔
اب کچھ ایام تو انہوں نے درزی سے ماسک تیار کروا کر کمپنی کو ہر روز پچیس ہزار یا اس سے زیادہ ماسک پہنچائے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ “بہت سے مغربی اور ترقی یافتہ ممالک میں ماسک مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم ماسک تیار کرنے کی مشین خریدلیں تو ہمیں بہت آسانی ہو جائے گی اور زیادہ تعداد میں کمپنی کا آرڈر پورا کرنا ممکن ہو سکے گا۔”
انہوں نے انٹرنیٹ پر کافی سرچ کی اور مختلف کمپنیوں کی تیار کردہ ماسک مشین کے بارے میں تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ “ماسک بنانے والی اچھی مشین چین میں تیار ہوتی ہے اور فی الحال اس مشین کا چین سے پاکستان درآمد کرنا بہت مشکل ہے۔ اور اس کی قیمت دس بارہ لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔”
وہ ایک دفعہ تو پریشان ہوگئے۔ پھر انہوں نے اپنے آپ سے یہ عزم کیا کہ “مجھے یہ مشین پاکستان میں ضرور خود تیار کروانی چاہیے۔” چنانچہ انہوں نے اس مشین کے بارے میں ضروری معلومات اکٹھی کیں۔ اس کی مینوفیکچرنگ کے بارے میں کافی تحقیقات کیں۔ پھر جب انہوں نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا اور ان کے ذہن میں بالکل واضح ہوگیا کہ “مقامی طور پر مشین کی مینوفیکچرنگ کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟” تو وہ ایک ماہر کاریگر کے پاس گئے۔ اس کے پاس جا کر انھوں نے اسے ماسک بنانے والی مشین تیار کرنے کا آرڈر دیا۔
“میں نے کبھی ماسک تیار کرنے والی مشین نہیں بنائی۔ لہٰذا میں مشین تیار نہیں کر سکتا۔” کاری گر نے سن کر انکار کردیا۔
“آپ پریشان نہ ہوں۔ میں آپ کو خود سارا کام سمجھاؤں گا اور پھر میری ہدایات کے مطابق آپ نے مشین ڈیزائن کرنی ہے۔ یعنی ڈائی میری ہوگی اور مشین آپ تیار کریں گے۔” عبداللہ صاحب نے اس کو تسلی سے سمجھایا۔
“میں نے پہلے کبھی مشین تیار نہیں کی۔ اور پھر جس طرح آپ مشین تیار کرنے کا کہہ رہے ہیں تو اس پر تقریباً تین چار لاکھ روپے لاگت آئے گی اور پھر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مشین کی تیاری کا کام کامیابی سے ممکن ہوسکے گا یا نہیں۔” کاری گر نے اپنی ذہنی پریشانی ان کے سامنے پھر واضح کردی۔
“آپ بالکل فکر نہ کریں۔ اس کام پر سارا پیسہ میں لگاؤں گا اور ساری انویسٹمنٹ میری ہوگی۔ اگر خدانخواستہ مشین تیار نہ ہو سکی تو میرا پیسہ ضائع ہوگا۔ اور آپ اس کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ اور اگر مشین تیار ہوگئی تو وہ مشین پھر میری ہوگی۔اور آپ کو آپ کی محنت کی پوری اجرت مل جائے گی۔اب آپ اللہ کا نام لے کر مشین بنانے کا آغاز کریں۔” انہوں نے اسے تفصیل سے
بتاتے ہوئے بالآخر مشین کی تیاری کا کام شروع کرنے کا آرڈر دے دیا۔
اب وہ ہر طرح کے نفع و نقصان کے ذمہ دار خود تھے کیونکہ کاری گر کسی قسم کا رسک لینے کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہ تھا۔
انہوں نے کاری گر کو مطلوبہ مقدار میں پیسے اور ضروری سامان وغیرہ مہیا کیا۔ اور مشین کی کامیابی کے لیے اللہ رب العزت کے حضور بہت زیادہ دعائیں کیں۔ صدقہ و خیرات بھی پہلے سے بڑھ کر کرتے رہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی کے فضل و کرم سے چند روز میں مشین کی تیاری کا کام کامیابی سے ممکن ہو گیا۔ کاریگر نے انہیں خوش خبری سنائی کہ “شیخ صاحب! آپکی ماسک بنانے والی مشین ماشاءاللہ بہترین طریقے سے تیار ہوگئی ہے۔” وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئےاور پھر حسبِ معاہدہ کاری گر سے معاملہ مکمل کیا۔
اب عبداللہ صاحب نے مشین کو چالو کرکے اس سے ماسک تیار کروانے شروع کیے۔ انہوں نے اس کام کے لیے ملازم مقرر کرلیے۔ یہ مشین ایک سیکنڈ میں ایک ماسک تیار کر دیتی تھی۔ یعنی ایک منٹ میں 60 ماسک۔ ان کی تو چاندی ہو گئی تھی اور اللہ نے ان پر اپنا بےتحاشا فضل کردیا۔
“ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔” (سورۃ الحدید:21)
ترجمہ: “یہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے، عطاکرتا ہے۔”
انہوں نے کثیر تعداد میں معیاری ماسک تیار کرواکے مختلف کمپنیوں کو سپلائی کرنے شروع کیے۔حسب ضرورت ملازموں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا۔ اللہ تعالی نے انہیں اپنے فضل و کرم سے دو چار مہینوں کے قلیل عرصے میں تقریباً دو کروڑ روپے کا منافع عطا فرمایا۔ جسکا بڑا حصہ انہوں نے فلاحی ہسپتال پر لگا دیا۔ دیگر نیکیوں کے کاموں پر بھی انہوں نے کافی پیسہ خرچ کیا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت و مشقت، حسن نیت اور فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کی بدولت انہیں دنیا میں بھی نوازا اور آخرت کا اجر اس کے علاوہ ہے۔
“ولاجر الآخرۃ خیر للذین آمنوا و کانوا یتقون۔” (سورۃ یوسف:57)
ترجمہ: “اور البتہ آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے بہترین ہوگا جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا۔”
رہا کاری گر کا معاملہ! جس نے یہ ماسک بنانے والی مشین تیار کی تھی، تو وہ بھی فائدے میں رہا۔ اس نے کمرشل پیمانے پر یہ مشینیں بنا کر فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا جس سے اسے کافی منافع حاصل ہوا اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہتر ہو گئی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر اس نے اپنے کاروبار کو بھی ترقی دے لی اور گھر بار کی حالت بھی کچھ سدھارلی۔
حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ صاحب کی چیلنج قبول کرنے اور اسکو جان مار کر بروقت پورا کرنے کی عادت نے انکی رف ٹف زندگی میں بڑی برکت اور آسانیاں پیدا کردی تھیں۔ اور اللہ نے انکو وہاں سے رزق عطا کیا تھا جہاں سے انہوں نے پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ (سورۃ الطلاق: 3)
ترجمہ: “اور وہ اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا تو اللہ اسے کافی ہوگا۔”
اس کے علاوہ انکی حسن نیت اور غریب پروری، لوگوں کی بہبود کی کوششوں نے بھی انکے معاملات سدھار دیے تھے اور انکی زندگی میں آسانیاں پیدا کردی تھیں۔ کیونکہ جو غریبوں اور ضعیفوں کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسکی مدد کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَى سَعْدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلَى مَنْ دُونَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ. (صحیح بخاری: 2896)
ترجمہ: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ انہیں دوسرے بہت سے صحابہ پر (اپنی مالداری اور بہادری کی وجہ سے) فضیلت حاصل ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “تم لوگ صرف اپنے کمزور معذور لوگوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے مدد پہنچائے جاتے ہو اور ان ہی کی دعاؤں سے رزق دیے جاتے ہو۔”
اللہ تعالی ہمارے رزق حلال میں برکت دے اور ہمیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کے لیے کشادہ دلی عطا فرمائے۔ آمین