کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں۔
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

یوں تو انسان کی زندگی غم اور خوشی دونوں سے عبارت ہے۔ لیکن اکثر اوقات اس کارگاہ حیات میں حزن و ملال سے سامنا رہتا ہے اور کئی ایسی ہستیاں جن کو ہم متاع عزیز قرار دیتے ہیں وہ ہمیں داغ مفارقت دے جاتی ہیں تو دل غم سے نڈھال ہو جاتا ہے ، کبھی کبھار انتہائی تکلیف دہ امور سے بھی پالا پڑتا ہے۔لیکن یہ سب معمول کی بات ہے۔ اس کی تصویر کشی غالب نے کچھ اس انداز میں کی ہے:-

قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں۔

لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے محروم ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں یوں کہا جاتا ہے:-

“موت العالم موت العالم”

حال ہی میں ہم اس کرب سے گزر رہے ہیں بہت تھوڑے وقت میں یکے بعد دیگرے نو، دس علمی شخصیات رخصت ہوئیں۔ ایسے انسانوں کا رخصت ہونا فرد واحد کا نقصان نہیں بلکہ پوری جماعت اور ملت کا نقصان ہوتا ہے۔

صحیح بخاری میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:-

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھاتا کہ بندوں (کے سینوں) سے نکال لے، بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھاتا ہے، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار (مفتی و پیشوا) بنا لیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے (خود بھی) گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔“

عظیم مربی، شیخ وقت فضیلة الشیخ علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے اپنے شاگرد رشید فضیلۃ الشیخ ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللّٰہ کے سانحہ ارتحال پر مؤقر مجلے ماہنامہ “دعوت اہل حدیث” کی اشاعت خاص “پیکر علم وعمل نمبر“ (فروری/مارچ 2018ع) میں ایک پر تاثیر اداریہ سپرد قرطاس فرمایا:-
قارئین کرام !!
اس اداریے میں سے ایک اہم اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ اور جانیے کہ ایک صاحب علم کا اٹھ جانا کتنا بڑا نقصان ہے۔

حضرات! ایک عالم کا بچھڑجانامحض اس کی شخصیت ،شکل وصورت یا دم ولحم کافقدان نہیں ،بلکہ اس کے سینے میں محفوظ وموجزن میراث نبوت کا فقدان ہوتا ہے۔ امت صرف اس کی شخصیت سے محروم نہیں ہوتی ،بلکہ اللہ رب العزت کی عطاکردہ اس کے حصہ کی میراثِ نبوت سے محروم ہوجاتی ہے، بلکہ بربادی کے دہانے پر جاپہنچتی ہے۔

حبرِامت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما قولہ تعالیٰ:[اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا۝۰ۭ ](الرعد)

کی تفسیر میں فرمایا کرتے تھے:

خَرَابُهَا بِمَوْتِ فُقَهَائِهَا وَعُلَمَائِهَا وَأَهْلِ الْخَيْرِ مِنْهَا.

یعنی زمین کی ویرانی اور بربادی علماء اور فقہاء اور اہل خیر کی وفات سے ہوتی ہے۔بقول شاعر:

الارض تحیا اذا ما عاش عالمھا

حتی یمت عالم منھا یمت طرف

زمین اس وقت زندہ وشاداب رہتی ہے جب تک اس کا عالم زندہ رہے،جب عالم کا انتقال ہوجائے تو زمین کا ایک حصہ بھی ساتھ ہی مرجاتا ہے اور مرجھاجاتاہے

مشہورتابعی سعید بن جبیررحمہ اللہ نے تو علماء کی موت کو امت کی ہلاکت قراردیاہے،جبکہ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کسی عالم کی موت کو اسلام میں ایک ایسا رَخنہ کہا ہے جو کبھی پُر نہ ہوسکے۔
(ادرایے سے اقتباس)

ان علماء کا جانا جہاں ہمیں غم سے ہم کنار کر گیا وہیں پہ ذہنوں میں یہ بات بھی ثبت کر گیا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کہیں ہم اس دور سے تو نہیں گزر رہے جس کی طرف اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اور دوسری بڑی حقیقت یہ کہ کم و بیش ستر اور پچھتر سال کے لگ بھگ دین اسلام کے لیے اپنی خدمات وقف کرنے والی اور شمع قرآن و حدیث کو فروزاں کرنے والی یہ لاجواب اور پیاری ہستیاں لقمہ اجل بن رہی ہیں جن میں بابائے قرآت یحییٰ رسول نگری رحمہ اللہ اور پروفیسر عبد الرحمن لدھیانوی رحمہ اللہ اور مولانا یونس بٹ رحمہ اللہ جیسے عالم با عمل اور نابغہ روز گار شخصیات شامل ہیں۔ تو ہم جو کسی کھاتے میں ہی نہیں کیسے بچ پائیں گے اس حقیقت سے جو اٹل ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کے زاویے کو بدلنا اور غور وفکر کرنا چاہیے تاکہ اس ناپائیدار زندگی کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔
اور اس دنیاوی زندگی کی ظاہری چکا چوند دھوکے ، اور برینڈڈ و نان برینڈڈ کے چکر سے نکل کر ، اپنی ابدی حیات کی تیاری کی فکر کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے جانے والے بزرگوں کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
جہاں تک ان جانے والوں کا خلا ہے وہ تو مدتوں پر نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ زندہ تھے تو پہیم رواں اور عزیمت کی تاریخ رقم کرتے رہے اور رب کریم کے پاس گئے ہیں تو بھی وہ خوب صورت تاریخ کا حصہ بن گئے۔اور ان کے کھونے پر ہم کف حسرت مل رہے ہیں۔ اور بہن جویریہ بتول کی درج ذیل آزاد نظم ہمارے دکھ کی عکاسی کر رہی ہے اور ہمارے بزرگوں کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔

پر نور افق پہ چھائے جو تارے
دور افق میں ڈوبے ہیں جو تارے۔
ڈوبے ہیں کیوں وہ اک بار سارے
اہل علم کی برکت سے کیوں
ہوئے ہیں خالی دامن ہمارے۔
جن کی امت کو کمی تھی اب تک۔
وہ بتدریج کم ہو رہے ہیں۔
انسانیت کا وہ درس دیتے تھے۔
کتنے گوہر جو ہم کھو رہے ہیں۔
علم کم ہوا اور جہالت ہے پھیلی۔
بڑھے جارہے ہیں یہ درد کے دھارے۔
ہیں نبیوں کے وارث اور ان کی بزم میں۔
خدارا کوئی ان کی قیمت کو سمجھے۔
دئیے تھے وہ جو خود جل رہے تھے۔
مگر روشنی وہ ہمیں دے گئے ہیں۔
یہ ہیں وقت کے کچھ اشارے کہ جن سے۔
ہمیں جیسے دل غفلتیں برتتے ہیں
علم کی زمیں پر خلا جو بڑھے ہیں۔
جلا کر خودی کو ہم خود ہی پر کریں گے
شعور اور علم کے وہی چاند بن کر۔
جہاں علم دین سے منور کریں گے
خدا میرے اسلاف کے لحد خانے
تو خلد بریں کر دے ان کے ٹھکانے
کہنے کو وہ چند لاشے ہی تو نکلے۔
حقیقت میں وہ اہل دل کی تھے رونق۔
بصیرت کا یوں دفن ہو نا بھی تو اب
کسی سانحے سے کہیں کم نہیں ہے۔
ملانا خدا تو ان سے اب ہمیں وہاں
اس کہکشاں کے بنا ہم کو تارے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں