محمد علی جناح اور آج کا پاکستان

قیام پاکستان کے مقاصد اورموجودہ حالات (جیسا کہ ناموس رسالت پر ہمارا مجموعی قومی رویہ ، شراب کے حوالے سے بے تکے دلائل اور فیملی پلاننگ کے حوالے سے ہمارے دانش وروں کی ہفوات اور بسنت جیسے قاتل تہوار کو کلچر کے نام پر عید الاضحی جیسے مقدس تہوار کے ساتھ نسبت دے کر رائج کرنا ) کے تناظر میں دیکھا جائے تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ آج کا پاکستان وہ ہرگز نہیں جو بابائے قوم کے عزم اور ارادوں کی تکمیل ہو۔ آج کی اس تحریر میں اپنے قارئین کے سامنے بابائے قوم کے فرامین کے تناظر میں یہ بات رکھنا چاہتی ہوں کہ آج کا پاکستان کس طرف سے جا رہا ہے؟؟

قیام پاکستان کے بعد انھوں نے اسلام جیسی حقیقت کا تذکرہ یوں فرمایا تھاکہ” اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں۔
آج یہ ریاست اسلامی تجربہ گاہ نہیں بلکہ یہ اسلامی اقدار کے خلاف کھڑی نظر آتی ہے۔اور اس کے قیام کے وقت جو نعرہ رستا خیز بلند ہوا تھا اس سے بغاوت کی جا رہی ہے۔ اور قرآنی ارشاد”ان الحکم الاللہ۔(حکم تو صرف اللہ کا ہے) کی بجائے تبدیلی کے نام پر شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ بقول شاعر
سر جس کے لیے قوم کے مردوں نے کٹائے۔ عزت کے گوہر بہنوں ، بیٹیوں نے لٹائے
اسلام کی توقیر پہ گھر بار لٹائے۔ کہلاتا ہے تخریب وہی دین کا نعرہ

قیام پاکستان کے بعد قائد نے یہ ارشاد فرما کر رواداری کی اعلی مثال قائم کردی تھی۔ “کہ لوگو تم آزاد ہو، تم آزاد ہو،اپنے مندروں اور اپنی مساجد میں جاننے کے لیے اور تم آزاد ہو اپنی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لیے”

اے میری قوم!! کیا غضب ہو گیا ہے کہ اسی عظیم پاکستان کو ہم نے فرقہ واریت کی جہنم میں جھونک کر قائد کے پیام رواداری کو خاک میں ملا دیا ہے یہی وہ پاکستان ہے جس نے قائد کے اس انقلابی فرمان کی گونج سنی تھی کہ اسلام میں اصلا کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ ہی کسی شخص اور ادارے کی۔قران و سنت کے احکام ہی ہماری سیاست و معاشرت کے رکھوالے ہیں۔

مگر آج اس انقلابی سوچ کو دفن کر کے ہم پوری قوم کو غلامی کا طوق پہنانے پر بضد ہیں۔ افرنگ و ہنود سے دوستی کی پینگیں بڑھانے والواوربھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے والے سایستدانو!!! محمد علی جناح رح نے کہا تھا. ” ہندو اور انگریز دونوں ہمارے دشمن ہیں۔ ہم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ان دونوں سے لڑیں گے۔اے اہل پاکستان! کاش آج کوئی اس فرمان کو دہراتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا، اس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اہم فرض ہے۔ جو کہ بانئ پاکستان رحمہ اللہ کے عزم میں شامل تھا۔لیکن یہاں انصاف کا جنازہ آئے روز نکلتا ہے۔بے گناہ لوگ انصاف کے لیے سسک سسک کر دم توڑ دیتے ہیں لیکن انصاف کے دروازے تک ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔

اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں اسلام پسندوں کے لیے ہمیشہ عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے۔اور ظالم و جابر اور قانون کے چیتھڑے اڑانے والے مجرم و قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ اسلامی تعلیم کے وہ مدارس جن کو مفکر پاکستان حضرت اقبال رح عساکر اسلام کی چھاؤنیاں فرمایا کرتے تھے۔ ان پہ آج دہشت گردی کا لیبل لگا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کی جا رہی ہے۔

اغیار کی خوشنودی کے لیے تعلیمی اداروں میں انگریزی رائج کرنے والے بھی بابائے قوم کا فرمان ملاحظہ فرمائیں. “ہماری قومی زبان اردو ہے ، پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور دفاتر اور عدالتوں میں بھی اسی زبان کو فروغ دیا جائے گا۔ افسوس صد افسوس!! ہم نے ان عظیم مقاصد کو فراموش کر دیا جن کے لیے یہ دھرتی وجود میں آئی۔ آؤ مل کر یہ عزم اور دعاکریں کہ یہ دھرتی ان حسین خوابوں کی آماجگاہ بنے جن کے لیے یہ معرض وجود میں آئی۔ورنہ قوموں نے تاریخ کے وہ دور بھی دیکھے ہیں، لمحوں نے خطا کی، صدیوں نے سزا پائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں