جیت کا سفر

کامیابی کے سفر میں علمی اور فکری نظریات کی اصلاح ایک اہم ایک رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان جب بھی اپنی زندگی کی جدوجہد شروع کرتا ہے لازمی نہیں کے محض ایک قدم بڑھانے کا مطلب کلی لحاظ سے اسے غلطیوں سے استثناء دلا دے گا۔ منزل کے جانب بڑھتے قدم اور نتائج میں شکست یا نقص اسے نئے اسباق اور عبرتوں کی دعوت دیں گے جو اس کے غلط نظریات کی عکاسی کریں گے اور اسے مدعو کریں گے کے اپنی فکری روحانی جسمانی انفرادی اجتماعی ذاتی باطنی اور خارجی اصولوں پر نظر ثانی کرے۔ اس لئیے کسی سفر یا جدو جہد کی ابتداء کو کامل بنانے کے لئیے لازم ہے انسان اپنی روحانیت، اصولوں اور مزاجوں کی اصلاح کرتا رہے خواہ وہ نصیحت باطنی نفسیات سے الہام کی شکل میں آئے یا خارج سے کسی کی تنبیہ یا اصلاح کی شکل میں۔

اکثر لوگ شروعات تو اچھی کرتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ اپنی اصلاح اور احتساب کے عمل پر رسی ڈھیلی کر دیتے ہیں جس سے انسان میں وسعت اور لچک کا فقدان پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے، اور انسان سستی، کاہلی، بد نیتی، حسد اور تکبر کا شکار ہونے لگتا ہے۔ حالات اور مشکلات سے گزرتے انسان کی نفسیات کو سخت چوٹیں لگتی ہیں اس سے انکاری نہیں کے انسان سخت چٹانوں سے مقابلہ کرتے کرتے تھکتا بھی ہے، اکتاتا بھی ہے، مزاج میں چڑچڑاپن، غصے غضب کی کیفیت سے دوچار بھی ہوتا ہے، نفسیاتی قلابازیوں سے گزرتا بھی ہے اور منفی سوچوں سے ہم کنار بھی ہوتا ہے، مایوسی بھی آتی ہے اور خوش فہمی بھی ان لمحات اور معاملات میں ممکن ہے انسان غلط نظریات کو فروغ دے دے اور راہ حق سے فرار اختیار کرکے دو نمبر رستے بھی اپنا لے مزاج میں حالات کی سختیوں یا نعمتوں کا غلط ادراک کر لے تو لازمی ہے کے انسان اپنی اصلاح کے لئیے ہمیشہ پر جوش رہے اور کھلے دل سے اسے قبول کرے۔

منزل تک پہنچنا آسان کام نہیں مگر حق کو قائم و دائم رکھتے ہوئے اور مثبت سوچ و فکر اور حقوق کے پاسداری رکھتے ہوئے پہنچنا ہی اصل جیت ہے اور یہ اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سے انسان میں نرمی اور بہادری دونوں پروان چڑھتی ہیں۔ کسی کی تنقید سے متنفر نہیں ہونا چاہئیے اور کسے کی بےبنیاد تنقید سے حوصلے پست بھی نہیں ہونے چاہئیے یہ تو سلسلہ ہے اپنے آپ میں ڈوب کر سمندروں سے موتی اور جواہر تلاش کرنے کا اور اپنے نفس کو اس معیار تک پہنچانے کا جہاں انسان اس معیار تک پہنچ سکے جہاں کائنات اس کے ساتھ کھڑی ہو اس کے حق میں گواہی دے جو مزاج، نظریات، احساسات، جذبات اور اخلاقیات کی اصلاح اور درستگی کے بغیر ممکن نہیں۔ قوموں کے زوال کی وجہ ہی اپنے اوپر ایک منفی اعتماد ہے کے ہم غلط نہیں ہو سکتے اس لئیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا انسان کو چاہئیے کے اپنا احتساب کر لے اس سے پہلے کے کوئی اور اس کا احتساب کر لے۔

اللہ نے دین میں بھی توبہ کا عمل اس لئیے رکھا ہے اور سورہ نصر میں بھی اللہ نے فتح کے بعد حکم دیا ہے کے فسبح بحمد ربك واستغفر کے انسان کو ہر مرحلے سے گزرنے کے بعد توبہ کرنی چاہئیے ممکن ہے اس نے اللہ ،مخلوق یا اپنی نفس کا کہیں حق تلف کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کے انسان کے حالات تبدیل نہیں ہو رہے دشمن کو شکست نہیں دے پارہے، لوگوں میں انقلاب نہیں پیدا کر پا رہے، مشکلات سے نکل نہیں پارہے، تنگیاں آسانیوں میں تبدیل نہیں ہو رہیں کیوں کے ہم نے اصلاح کا عمل ترک کر دیا ہے اور اللہ بھی فرماتا ہے؛ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ اس قوم کے حالات جب تک نہیں بدلتے جب تک وہ اپنے حالات کی اصلاح نہیں کرتے۔

خواہ وہ اخلاقی، جذباتی، روحانی، جسمانی، انفرادی، اجتمائی یا نظریاتی اصلاح ہو۔ نفس پر بہت گراں گزرتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اصلاح کرنا، نفس اپنے اندر ایسا تکبر چھپائے بیٹھا ہوتا ہے کے ایک وقت پر انسان کا نفس ہمت ہار دیتا ہے کے اب اصلاح نہیں کر سکتا اب نہیں بدل سکتا اور ایک خیالی کمال کا دعویدار بن جاتا ہے اور ناقدین کے خیر سےمنکر ہو جاتا ہے اور مزاج اس خیر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا جو اس اصلاح کا ثمر ہوتا ہے۔ اور جب بھی انسان نے اپنے مقام اور مرتبے کو مقید کیا ہے لوگوں کے تجربوں کے آگے اور حق بات پر منفی مزاج دکھایا ہے انسان کا زوال وہیں سے شروع ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کتنی تحریکیں عدم اصلاح کی وجہ سے معدوم ہو جاتی ہیں اور انسان جس کام کے لئیے بنایا گیا تھا اور دنیا میں بھیجا گیا تھا اس سے میلوں دور غلامی اور شکست پر اکتفاء کر ںیٹھتا ہے اور پھر باطل دلائل کی کھوج میں لگ جاتا ہے یہ وجہ تھی وہ وجہ تھی ہم فلاں مقام تک نہ پہنچ سکے اور اس کا مقدر حیلے بہانے کے سواہ کچھ نہیں رہتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں