جشن آزادی یا غلامی؟

آج 14 اگست ہے.اور یہ پاکستانی قوم کے لیے اس لیے اہم ہے کہ وہ آج کے دن آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ پاکستانی قوم کی ایک روایت بن چکی ہے کہ وہ اس دن کو بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ قطع نظر اس بات سے کہ اس دن کے تقاضے کیا ہیں؟ ہماری اس حاصل ہونیوالی آزادی کا مفہوم کیا ہے؟

ہماری قوم رقص وسرود کی کچھ زیادہ ہی دلدادہ ہے بات معراج کے مقدس سفر کی ہوتی ہے جو کہ لاکھوں عبرتوں پر مبنی ہے اور ہمارا یہ طرز عمل ہے کہ اسکو بھی غیر اقوام کی نقالی میں منانا ہے پھر فرصت پا کر ہم ویلنٹائن ڈے اور بسنت میں بھی جا گهستے ہیں۔ آزادی کی مناسبت سے بھی اپنے گھروں ، دکانوں اور بازاروں کو جھنڈیوں سے سجاتے ہوئے اور لھوو لھب میں ڈوب کر آزادی کے جشن مناتے ہوئے ہم نے کبھی سوچا کہ اس مملکت خداداد کے تقاضے کیا ہیں؟؟ہم نے اس کے حصول کے وقت لا الہ الا اللہ کا نعرہ رستا خیز بلند کیا تھا. تعصب اور ذات پات سے بالاتر ہو کر اسلامی اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے حاصل کیا تھا بانی پاکستان نے فرمایا تھا یہ اسلام کا قلعہ ہو گا .اور فرمایا اسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے.افسوس صد افسوس کہ اس مملکت میں سیکولر ازم،سوشلزم اور لبرل ازم کے تجربے تو بہت ہوئے لیکن یہ اسلام کی تجربہ گاہ نہ بن سکی..اپنے ہدف کو کھونے کا نتیجہ ہم بھگت رہے پیں۔



اس ملک کی مسند صدارت پر بیٹھنے والے آمروں نے اسلام کے خلاف آوازے تو کسے لیکن اس ملک کے بد حال عوام کو امن اور خوشحالی دینے سے محروم رہے..ان سارے مصائب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے نظریے سے غداری کی ہے.. کیا ھمارے اسلاف نے اسی مقصد کے لیے قربانیاں دی تھیں
بقول شاعر.
سر جس کےلیے قوم کے مردوں نے کٹائے
عزت کے گوہر بہنوں بیٹیوں نے لٹائے
اسلام کی توقیر پہ گھر بار لٹا ئے
کھلاتا ہے تخریب وہی دین کا نعرہ.

آزادی کے راگ الاپتے ہوئے کبھی ہمارے ذھنوں میں وہ صعوبتیں اور قیامتیں آئیں جو آزادی کے مجاھدوں پر ٹوٹیں. نہ ہمارے تصور میں کبھی پٹنہ و بہا ر کے وہ شہید آئے جنھوں نے جاں کے نذرانے پیش کیے اور نہ ہی کبھی ہم نے سوچا کہ کالا پانی کی سزائیں کیوں کاٹی گئیں ہمیں وہ آزادی کے طلبگار بھی ہرگز یاد نہیں آئے جنکے مرنے کے بعد بھی انکے قبرستانوں پر بلڈوزر چلائے گئے میرے کمزور قلم میں اتنی طاقت کھاں ھے کہ ان سبکو احاطہ تحریر میں لائے ہاں البتہ آزادی کے موقع پر کچھ کا تو ذکر کرنا پے کیونکہ؛
غالب اپنی تلخ نوائی سے رکھیو مجھے معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ھوتا ھے

میرے وطن کے باسیو!!!ایک جھلک اور دیکھیں تاکہ اندازہ ہو کہ آزادی کی قیمت کتنی بھاری ہے.آپکو بالاکوٹ کی وادی میں لے چلوں جہاں جرم آزادی میں سیدین شھیدین کے چہروں کو گھوڑوں کے سموں سے روندا گیا اس سے تھوڑا آگے علمائے صادقپور اسی جرم کی پاداش میں پھانسی کے پھندے کو چوم رہے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اسی عزیز دھرتی پر بیٹھ کر اسلاف کو یاد رکھنا تو دور کی بات ہے بے شمار استعماری ایجنٹ وسعت قلبی کے چکر میں اسلام اور پاکستاں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں اور جن لوگوں سے آزادی کے لیے ہم نے سب کچھ کھویا وہ خود کو انہیں کے زر خرید غلاموں کی طرح پیش کرتے ہیں۔ اے اہل وطن!! اگرہم نے انکی غلامی کے شکنجے میں ہی پھنسنا تھا تو اتنی کٹھنائیوں سے کیوں گزرے؟؟



یاد رکھیے!!!!! جبتک پم خود کو غلامی سے نکال کر آزادی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے تب تک نہ ہمارے حالات درست ہونگے اور نہ ہی مسائل کم..اگر ہم سیاسی، سماجی ،معاشی مسائل کا حل اور امن چاھتے ہیں تو اپنے وعدے کو ایفاء کریں ورنہ یاد رکھیں قدرت ڈھیل دیتی ہے لیکن ہٹ دھرمی اختیا ر کرنیوالوں کے لیے سخت سزا بھی تیار کر رکھی ہے. اللہ رب العزت سے دعا ہے وہ اس ارض پاک کی حفاظت فرمائے اور ھمیں اپنے وعدوں کو ایفاء کرنے کی توفیق دے. آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں