کراچی ائیر پورٹ پر چھوٹے سے قد کی گول مول ایک خوبصورت مگر پروقار خاتون متلاشی نظروں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ وہ پہلی بار اس شہر میں نہیں آئی تھی۔ بلکہ اس شہر نے اسے بے تحاشا نوازا تھا۔ شہر کراچی اس کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا۔ عمر کی چھتیس بہاریں دیکھنے کے باوجود بھی اس کے اندر کی خزاں کسی بہار کی خوبصورتی کو محسوس ہونے نہیں دے پا رہی تھی۔
اس کا تعلق پنجاب کے ایک پسماندہ گاؤں سے تھا۔ ایم ایس سی کرنے کے بعد اس کی آنکھوں میں کچھ خواب تھے،جن کو وہ پورا کرنا چاہتی تھی۔ مگر سوتیلی ماں کو اس کا وجُود مزید گھر میں نہیں چاہیئے تھا۔لہٰذا بائیس سال کی عمر میں باپ نے اس کی شادی ایک ایسے شخص سے کردی۔ جو بچپن سے شوگر کا مریض تھا۔ لہٰذا پانچ سالوں میں اُس نے سکول اور پھر یونیورسٹی میں پڑھایا ۔اور شوہر کو کما کما کر دیتی رہی۔لیکن ان پانچ سالوں میں اس کی زندگی ویسی ہی رہی ۔جو شادی سے پہلے کسی لڑکی کی ہوتی ہے۔ مرد کے لمس سے وہ آج بھی نا آشنا تھی۔ اور ایک دن چُپکے سے اُس کے ہاتھ میں کاغذات پکڑا کر “طلاق یافتہ” ہونے کی سند سے بھی نواز دیا گیا۔ اور وہ پھر سے بےحس باپ اور سوتیلی ماں کے در پر آ پڑی۔باپ جس کو اپنی جوان بیوی کے نخروں سے فرصت نہیں تھی۔اس کے وجود سے یکسر غافل تھا۔ بیٹیوں کی زندگی جیسے رنگین ہوتی ہے ویسے ہی اس کی زندگی بھی رنگوں سے بھری ہوئی تھی۔ لیکن بِن ماں کی ہونے اور ساتھ میں مطلقہ کا داغ ماتھے پر سجائے وہ رنگ خون کے تھے۔ سوتیلی ماں کے طعنوں اور باپ کی بے اعتنائی سے تنگ آکر وہ مرد بن کر پھر سے مزدوری میں جُت گئی۔
نوکری اور اپنے باپ کے اخراجات پورے کرتے کرتے کب بالوں میں چاندی اُتر آئی،معلوم ہی نہیں ہوا۔ تعلیم یافتہ تو وہ پہلے ہی سے تھی۔ساتھ میں پڑھانے کا تجربہ بھی۔بالآخر اس کو بیرون ملک تعلیمی اداروں میں اپلائی کرنے پر جاب مل گئی۔اور وہ باہر جا کر وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے لگی۔وقت کا پنچھی اُڑان بھرتا گیا۔کبھی کبھار اُس کے دل میں بھی یہ خیال آجاتا۔کہ کاش اس کا بھی کوئی گھر ہوتا ،بچے ہوتے اور وہ بھی شوہر کی خدمت کرکے بدلے میں تھوڑی سی عزت حاصل کرلیتی۔ مگر پچھلا تلخ تجربہ یاد کرکے وہ اپنے ہی خیالات پر شرمندہ ہوجاتی۔
بالآخر ایک دن اس کی زندگی میں بھی بھونچال آگیا۔نا چاہتے ہوئے وہ بھی کسی کی محبت کی اسیر ہوگئی۔ مگر اپنی کم مائیگی کا احساس کرکے اُس نے یہاں بھی چُپ سادھ لی۔مگر اس بار شائد خدا کو بھی اُس پر ترس آگیا۔ کہ ایک دن بنا پوچھے فاخر سلیم خان اس کی سوچوں پر قابض ہوکر اُس کی زندگی میں رنگ بھر گیا۔
برسوں بعد اُس کو اپنے ہی وجُود کے ہونے کا احساس ہوا۔ وہ نہال ہوگئی۔ اُس کے محبوب کی شرارتی آنکھیں اُس کا مزاحیہ پن اور اُس کو شہزادیوں جیسی عزت دینا،وہ خود کو کسی اور ہی دُنیا کی باسی محسوس کرنے لگی۔ پہلی ملاقات جو اس ایئرپورٹ پر ہوئی تھی۔ اُس کے محبوب کا اُسے گلے لگا کر نکاح کا پیغام دینا،جہاں سینکڑوں آنکھیں اُن دونوں پر مرکوز تھیں۔ اور شرم سے وہ پانی پانی ہورہی تھی۔ مگر اس کے محبوب کے والہانہ پن پر اس کو فخر بھی محسوس ہورہا تھا۔بالآخر وہ اپنے محبوب کی ہوگئی۔
حالات نے کب پلٹا کھایا،پتہ ہی نہیں چلا۔فاخر سلیم نے اس کے لئے بہت کچھ کیا۔ہر بار اس کی چاہتوں،محبتوں اور وارفتگیوں پر آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔مگر اب کی بار یہ آنسو غم کے نہیں بلکہ خوشی اور شُکر کے ہوتے تھے۔ فاخر اُس کو بولتا۔ کہ معلوم نہیں مُجھے آپ سے کیسے محبت ہوگئی۔شاید یہ خدا کی طرف سے کوئی حکم ہے یا پھر ہم دونوں کی محرومیاں ہیں جو ہم دونوں کو ایک دوسرے کو قریب لے آئیں۔ وہ جب حد سے زیادہ جذباتی ہوجاتی تو فاخر اُسکو “فبآئی آلاء ربکما تکذبان” کی تفسیر سنانے بیٹھ جاتا اور وہ خدا کا شکر ادا کرنے لگتی۔کبھی کبھار فاخر اس کو ڈانٹ دیتا کہ خود میں بہادری اور خود اعتمادی پیدا کرو۔ کل کلاں کو میں نا رہوں، تو کوئی اور فاخر آکر آپ کو نہیں سنبھالے گا۔ اور وہ ناراض ہوکر اس کو گُھورنے لگ جاتی۔
امیگریشن سے فارغ ہوکر وہ باہر نکل رہی تھی۔ دل کی حالت عجیب سی ہورہی تھی۔ برسوں بعد آج وہ دوبارہ کراچی ایئرپورٹ پر اُتر رہی تھی۔ اُس کے ہاتھوں میں پھول تھے۔ جیسے ہی لاؤنج سے باہر نکلی تو اس نے ادھر اُدھر دیکھا۔ مگر سینکڑوں چہروں میں اُس کا چہرہ دکھائی نہیں دیا۔اُس کو لگ رہا تھا کہ کوئی پیچھے سے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے گا۔اور اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر لوگوں کے سامنے اس کو گلے لگائےگا۔ پانچ دس منٹ گزر گئے،لیکن وہ نہیں آیا۔ پھول اس کے ہاتھوں سے گر گئے۔ ساتھ میں دو موتی بھی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ پھول وہیں چھوڑ کر ڈومیسٹک لاؤنج پر موجود ٹکٹ کاونٹر پر گئی۔اور اگلی دستیاب فلائٹ سے پشاور کا ٹکٹ بُک کروا لیا۔وہاں سے دُور جانے کے لئے جہاں فاخر کے ساتھ گُزاری ماضی کی حسین یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
دُور کہیں کوہاٹ کے ایک سُنسان قبرستان میں ایک خاموش قبر جس پر پاکستان کا سبز ہلالی بوسیدہ جھنڈا لگا ہوا تھا۔وہ جھنڈا اچانک تیزی سے پھڑپھڑانا شروع ہوگیا۔ پاس ہی کوئی قبر کھودتے قبرستان کے گورکن نے گھبرا کر جھنڈے کی طرف دیکھا۔ اور جُزبُز ہوتے ہوئے اپنے ساتھی سے بولا،کہ فضل خان ہوا ساکت ہے مگر یہ جھنڈا بُری طرح سے لہرا رہا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔
فضل خان گورکن قریب آکر جھنڈے کو غور سے دیکھنے لگا۔ واقعی ہوا ساکت تھی مگر جھنڈے کے پھٹے ہوئے حصے بہت تیزی سے پھڑ پھڑا رہے تھے۔ اچانک اس کی نظر قبر پر نصب کتبے پر پڑی،جہاں لکھا ہوا تھا۔
میجر فاخر سلیم خان شہید (ستارہ جرات)
سپشل سروسز گروپ (کمانڈو بٹالین یلدرم)
تاریخِ شہادت 5 مئی 2017ء بمقام وادئ تیراہ خیبر ایجنسی!
Bohut khobsort ankhein num kr deny wali thereer
Khattak sab maloom he nahi hua k anko sy pani k katry kaisy gery۔
Love u lala jaan۔
من جانبازم۔۔۔