ہمارے قومی مسائل اور سوشل میڈیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: تم میں سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ اگر آپ روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا ویب سائٹس خاص کر کے ٹوئیٹر کا وزٹ کریں تو ایسا لگے گا کہ جیسے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو بھول ہی گئے ہوں۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور فرمان ہے کہ: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کا قتل کرنا گناہ ہے۔ آپ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر دیکھیں گے آپ کو ہر دس میں سے اک آدمی ضرور گالیاں دیتا یا کسی کو برا بھلا کہتا نظر آئے گا۔ ٹوئیٹر پر تو ٹاپ ٹرینڈز ہی گالیاں ہوتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ٹوئیٹر کے ٹاپ ٹرینڈز میں ضرور کوئی ناں کوئی گالی، بے ہودہ جملہ یا کسی کا بگڑا ہوا نام ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگوں کو ان کے اصلی نام سے پکارو۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم نے انکے فرامین اور اسلامی تعلیمات کو بالکل ہی بھلا دیا ہے۔

اسلام کہتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے اور اس بات پر غیر مسلم ممالک میں عمل کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ صفائی کے اتنے پابند ہیں کہ اگر ان کے آس پاس کچرا پھینکنے کی جگہ ناں ہو تو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اگر کوئی مخصوص جگہ نظر آئے تو وہی پھینکتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں بیچ سڑک میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں اور تو اور میں نے مسجدوں کے سامنے بھی کوڑے کے ڈھیر دیکھے ہیں۔ کم از کم اس پاک جگہ کے تقدس کا ہی خیال کر لیا جائے۔ وہاں بارشیں ہوتی ہی تو سڑکیں شیشے کی طرح چمکتی نظر آتی ہے اور اگر ہمارے ہاں بارش ہو جائے تو سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں۔ سارا کوڑا کرکٹ سڑکیوں پر کشتیوں کی مانند تیر رہا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا قومی مسئلہ تو اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالنا ہے ناں۔۔

اگر ہمارا تعلیمی نظام دیکھا جائے تو صدیوں پرانا ہے۔ ہمارے ملک میں بچے گیارہ سو میں سے 1090 نمبرز لے رہے ہیں لیکن یہاں کوئی سائنسدان کوئی ایسا انجینئر نہیں بن سکا جو ملک و قوم کا نام روشن کر سکے۔ ہم سوشل میڈیا پر اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے؟

ہمارے ارد گرد کئی والدین خودکشی کر لیتے ہیں کہ انکے پاس بیٹی کی شادی، جہیز اور دیگر فضول رسومات کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ ہم سوشل میڈیا کے ذریعے مہم چلا کر ان فضول رسومات کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے ارد گرد کئی بچے بھوک سے مر جاتے ہیں ہم ان فضول رسومات پر خرچ ہونے والی رقم کو ان غریبوں میں کیوں نہیں بانٹ سکتے؟

جھوٹ ہم بولتے ہیں، رشوت ہم لیتے اور دیتے ہیں، دوسرے کے حقوق پر ہم ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ لیکن ہم نہ خود کو ٹھیک کریں گے اور نہ اس معاشرے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ ہمارا قومی مسئلہ تو یہ ہے کہ بلاول کو صاحبہ کیوں کہا گیا؟ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو چوری کی وجہ سے جیلوں میں کیوں ڈالا گیا؟ ہمارے وزیراعظم کو سلیکٹڈ کیوں کہا گیا؟ یقین کریں اس میں چلنے والے ٹوئیٹر ٹرینڈز دیکھ کر اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کیا یہ واقعی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟

سوشل میڈیا کا جتنا غلط استعمال ہمارے اور ہمارے ہمسایہ ملک میں ہوتا ہے شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ آپ کسی انٹرنیشنل پیج پر بھی چلیں جائیں وہاں آپکو پاکستانی اور بھارتی نوجوان ہی لڑتے نظر آئیں گے۔ اگر مغرب والوں کا اخلاق دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ساری اسلامی تعلیمات پر تو وہی عمل کر رہے ہیں۔ ہم تو صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔

خدارا سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کریں۔ اس کے ذریعے ان مسائل کے حل پر بات کریں جن کا حل واقعی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں۔ کوشش کریں کہ اچھی ذہنیت کے لوگوں کو فالو کریں۔ اس پلیٹ فارم کا جو مقصد ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ اس کا مثبت استعمال کرتے ہیں تو آپ اسی سوشل میڈیا کے ذریعے آمدن بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں