ہمارا فرسودہ تعلیمی نظام

جیسے جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے تعلیم کی اہمیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اگر آپ کسی بھی نوکری کا اشتہار دیکھیں تو آپ کو تجربہ کے خانے سے پہلے تعلیمی قابلیت کا خانہ نظر آئے گا لیکن کیا ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ آپکو ایک اچھی نوکری دلوا سکے یا آپ اک اچھا کاروبار شروع کر سکیں؟ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں انکا کوئی مستقل آمدن کا ذریعہ نہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں شروع سے ہی بچوں کا ایسا ذہن بنایا جاتا ہے کہ آپ نے بڑے ہو کر نوکری کرنی ہے یعنی نوکر بننا ہے اور جب بچہ بڑھا ہوتا ہے تو اسے نوکری بھی نہیں ملتی۔

شمالی یورپ میں ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے۔ ملک کی کل آبادی تقریباً 55 لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔ ہم دن میں کئی بار گوگل کا استعمال کرتے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ گوگل کا سی ای او کس ملک سے ہے؟ گوگل کا سی ای او اک انڈین ہے۔ نا صرف گوگل بلکہ مائیکروسافٹ، ایڈوبی اور نوکیا کے بھی سی ای اوز انڈین ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ انڈین ہم سب سے اتنے آگے ہیں؟ اس کی وجہ یہ بھی نہیں کہ وہ کسی انٹرنیشنل یونیورسٹی میں پڑھے ہیں بلکہ وہ انڈیا کی اپنی ہی یونیورسٹیز میں پڑھ کر گئے ہیں۔ اس سب کی چند وجوہات ہیں جس کا ذکر ہم یہاں پر کریں گے۔

ہمارے ہاں بچے کو سکول میں داخلہ لینے سے پہلے ہی ایسا ڈرا دیا جاتا ہے جس سے بچے کی آدھی صلاحیتیں تو وہیں پہ دم توڑ جاتی ہیں اور جب بچے سکول میں داخل ہو جاتا ہے تو وہاں اس پر سب سے پہلے جو بوجھ ڈالا جاتا ہے وہ ڈھائی کلو کا سکول بیگ ہے۔ میرا بھانجا نرسری میں ہے اور اسکی 5 کتابیں اور 6 کاپیاں ہیں۔ کیا نرسری کے بچے کے لیے اتنی کتابیں، کاپیاں ضروری ہیں؟ نرسری کے بچے پر اتنا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور یونیورسٹیز کے لڑکے ہاتھ میں کتابوں کے بجائے موبائل فونز پکڑے جارہے ہوتے ہیں۔

اگر کلاس میں بچہ استاد سے کوئی سوال کردے تو استاد بچے کو ایسے گھورتا ہے جیسے اس بچے نے کوئی نازیبا الفاظ کہہ دیے ہوں۔ مجھے اپنا بچپن یاد ہے، ہمارے اکثر ٹیچر ایسے تھے کہ اگر کلاس میں کوئی بچہ سوال کر دے تو اسے کلاس سے باہر بھیج دیتے تھے۔ آپ جتنا مرضی اچھا پڑھاتے ہوں لیکن بچہ کے کانسیپٹ تبھی کلیئر ہونگے جب آپ اسے سوال کرنے کی عادت ڈالیں گے اور جب وہ سوال کرے تو اسے موثر جواب دیں گے۔

نہ جانے ہمارے تعلیمی اداروں میں کونسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ نا تو اسلامی ہے اور نا ہی مغرب والا۔ اگر اسلامی ہوتا تو اس ملک کی مسجدیں ویران نہ ہوتی۔ آپ کسی بھی مسجد میں جا کر دیکھیں۔ آپکو اکثریت بزرگوں کی نظر آئے گی۔ جاپان میں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں “۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔
اور اگر ہم مغرب کا نصاب پڑھا رہے ہیں تو وہ ہم سے آگے کیوں ہیں؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں سالوں پرانا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جو آج کے موجودہ حالات کے عین مطابق نہیں۔ بیس سال پہلے جو کورس تھا آج بھی وہی چل رہا ہے وہ سب باتیں تو آج کل 9 سال بچے کو بھی پتا ہیں جو ہمارے میٹرک کے کورس میں پڑھائی جا رہی ہیں۔

ہم 10-12 سال سکولوں میں بچوں کو قطار بنا کر چلنا سکھاتے ہیں صبح اسمبلی میں قطار میں کھڑے کرتے ہیں لیکن وہی بچے بڑے ہوکر جو سب سے پہلا کام کرتے ہیں وہ قطار کو توڑنا۔ جو جتنے بڑھے سکول سے پڑھا ہوتا ہے وہ سب سے پہلے یہ فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ بچے سکول میں ہر وقت سائنس پڑھتے رہتے ہیں لیکن آپ کو ملک میں کوئی سائنس دان نظر نہیں آئے گا۔ بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ اسلامیات جیسا مضمون بچے نقل کر کے بھی بمشکل پاس کرتے ہیں

اس کے بعد ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں پر سب سے زیادہ جو ظلم کیا جاتا ہے کہ انہیں شروع سے میٹرک تک یہی رٹوایا جاتا ہے کہ ماؤس اک اِن پٹ ڈیوائس ہے۔ کبھی انہیں ماؤس کے فنکشنز یا ماؤس چلا کر نہیں بتایا جاتا۔ میرے اکثر جاننے والے ہیں جنہوں نے گریجویشن تک کر لی ہے اور انہیں ابھی تک ماؤس نہیں پکڑنا آتا۔ سوچیں انہوں نے اپنی تعلیم پر کتنا خرچہ کیا ہوگا؟ لیکن کمپیوٹر جو آنے والے دور کی بنیادی ضرورت ہے اگر انہیں وہ ہی نہیں سکھایا گیا تو اس تعلیم کا کیا فائدہ؟ چائنہ کا مشہور بزنس مین جیک ماء یہ کہتا ہے کہ اگر آپکا بزنس آن لائن نہیں ہے تو آپ کوئی بھی بزنس نہیں کر رہے۔ ہمارے نوجوانوں کو کمپیوٹر کی تعلیم سکول، کالجز میں دی ہی نہیں جاتی تو وہ آن لائن بزنس کیسے کریں گے؟

انڈیا میں سٹوڈنٹس کو باہر ممالک میں پڑھنے کے لیے سکالرشپس اور قرضے دیے جاتے ہیں اور یہاں پاکستان میں جب تک کسی کے بینک اکاؤنٹ میں 15-20 لاکھ روپے نہ ہوں تب تک وہ اپنے بچے کو اعلی تعلیم نہیں دلوا سکتا کیوں کہ یہاں پڑھائی کے اخراجات ہی اتنے زیادہ ہیں۔ ہم صرف انڈیا کو گالیاں دینے میں آگے ہیں لیکن ہم کبھی انکا تعلیم اور ٹیکنالوجی میں مقابلہ کرنے کا نہیں سوچیں گے۔ ہمارے ملک میں ہمیشہ پل اور سڑکیں بنانے پر ہی زور کیوں دیا جاتا ہے؟ کیونکہ یہاں اگلا الیکشن خریدا جاتا ہے اک قوم نہیں بنائی جاتی۔ قومیں تو تعلیم اور شعور سے بنتی ہیں سڑکوں، پلوں اور لڑنے مرنے سے نہیں۔

ہمیں اپنا تعلیمی نظام تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب ہمیشہ دوسرے ممالک کی مثالیں دیتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ ایسا تعلیمی نظام بھی لائیں گے کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی گوگل جیسی بڑی کمپنیز کے سی ای اوز بنیں گے۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ پرانے کورس کو تبدیل کیا جائے۔ ماؤس اک ان پٹ ڈیوائس ہے کی بجائے بچوں کو یہ بتایا جائے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے ہم کس طرح اپنی زندگی بدل سکتے ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مضامین شامل کیے جائیں۔ اور سکولنگ تین، چار سال کی عمر کے بجائے سات سال کی عمر میں شروع کی جائے اسکے بعد بچے کو ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے والے مضامین پڑھائے جائیں۔ اسکے بعد ہائی سکول میں بچے کو جدید کمپیوٹر، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور سائنسی تعلیم دی جائے۔ بچوں کو ڈگریوں کے چکر میں پڑھنے کے بجائے سکلز سکھائی جائیں۔ جب انکے پاس سکلز ہونگی جدید کمپیوٹر تعلیم اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں مہارت ہوگی تو انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب گوگل اور مائیکروسافٹ کا سی ای او کوئی پاکستانی ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں