حج بیت اللہ اس کی فلاسفی، اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو مناسک رکھے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ یہ آج ہم ڈسکس کریں گے۔جس طرح نماز شروع کرتے ہوئے ہم تکبیر تحریمہ کہتے ہیں، رکوع میں جاتےہوئے، اور رکوع سے اٹھتے ہوئے، امام ابن القیم الجوزیہ فرماتے ہیں جو نماز میں تکبیر تحریمہ کا مقام ہے وہی حج میں بیت اللہ کا۔تلبیہ سفر حج، نیت سب اسی سے شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے آپ اسے سمجھیے۔ “لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ… لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ … إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكُ لَا شَرِيْكَ لَكَ “مسلم
اے اللہ میں تیری خاطر حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں۔اے اللہ میں پھر حاضر ہوں۔ بلاشبہ تعریفیں بھی تجھے ہی سزاوار ہیں، نعمتیں بھی تیرے ہی اختیار میں ہیں، بادشاہت، اقتدار اعلیٰ سب کچھ تیرے پاس ہے۔صرف تیرے پاس ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔
کیا گہرائی ہے ان الفاظ میں، آپ نے میرے ساتھ ان الفاظ پر غورو فکر کرنا ہے۔ سب سے پہلی بات میں حاضر ہوں باربار حاضر ہوں یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی آپ کو بلائے فلاں شخص آیا ہے؟ اٹینڈینس لگائے۔ رب العزت نے آپ کو اپنے گھر کا انویٹیشن کارڈ بھیجا ہے۔آؤ نہ دور دراز کے مقام سے چل کر میرے خلیل اور اس کے بیٹے نے میرے اس پہلے مرکز بیت اللہ کی دیواریں کھڑی کی تھیں۔ ان کی زیارت کرو۔ آپ خود نہیں جا رہے بلکہ تلبیہ آپ کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ آپ کو کسی نے بلایا ہے اور آپ حاضری دینے جا رہے ہیں۔ لبیک۔۔
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ. (اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں۔) ( سوره الحج:27)
لوگوں میں حج کا اعلان کر دیں۔ آپ کو انویٹیشن مل گیا اور آپ نے کہا اے اللہ میں حاضر ہوں۔ بار بار حاضر ہوں۔ کبھی یہ نہیں سوچنا کہ پیسے کے بل بوتے پر، دولت کی بنیاد پر یا اپنی خاص ہمت اور استطاعت کی وجہ سے حج ہوتا ہے۔ بیت اللہ کے پڑوس میں مکہ ٹاور کے اندر رہنے والا پچیس سال سے ملازمت کرنے والا ایسا بد نصیب بندہ (اس کے کولیگ کے بقول ) جسے ان پچیس سالوں میں حج کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔
لبیک۔ اے اللہ تونے مجھے بلایا ، میں حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں۔پھر حاضری کے لیے مختلف الفاظ ہیں جیسے نعم۔۔وغیرہ۔۔لیکن جو گہرائی، جو الفت ، جو چاہت لفظ لبیک کے اندر پائی جاتی ہے اور دنیا کے کسی لفظ کے اندر نہیں پائی جاتی۔۔امام ابن القیم الجوزیہ لکھتے ہیں امرأةلبى جو عورت اپنے شوہراور شوہر اپنی عورت سےایک دوسرے سے گہری محبت رکھتے ہوں اس جوڑے کے لیے لبی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔۔لبیک کے اندر یہ مفہوم پایا جاتا ہے اے اللہ کسی کے کہنے پر نہیں، ڈنڈے کے زور پر نہیں، کسی جبر اور پریشر میں نہیں، میں تو بہت عرصے سے بے چین تھا۔ اس لیے اپنی ساری محبتوں کے ساتھ حاضر ہوں۔
ساری چاہتیں اور شوق لے کر حاضر ہوں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے لبیک کے مفہوم پر 22 گہرے نقطے بیان کیے ہیں۔میں صرف چند کی طرف اشارہ کروں گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس میں لفظ لب کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے لب کسی چیز کے جوہر اور خالص چیز کو کہتے ہیں۔گویا آپ تلبیہ میں یہ بھی کہتے ہیں اے اللہ میں ساری محبتوں اور چاہتوں کے ساتھ حاضر ہوں۔ اور خلوص نیت کے ساتھ حاضر ہوں۔ لبیک کے اندر ایک اور مفہوم الباب کا پایا جاتا ہے۔ کسی کو اپنے قریب کر لینا، مانوس کر لینا، آپ یوں بھی کہہ رہے ہوتے ہیں اے اللہ تیری قربتیں وفائیں، محبتیں حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوں۔
تلبیہ میں تین مختلف خصوصیات کے ساتھ اللہ کے اور بندے کے تعلق کا حوالہ دیا۔۔ان الحمد سب تعریفیں، والنعمة سب احسانات بھی تیرے۔سارا اقتدار اور بادشاہی بھی تیری، تیرے علاوہ کوئی تیرا شریک نہیں۔ اے اللہ!! میں تو کسی اور کی چوکھٹ پہ جاتا ہی نہیں ہوں۔۔میں کسی اور نہ حاجت روا سمجھتا ہوں اور نہ ہی کسی اور کے لیے کبھی سجدہ کیا۔
اے اللہ میرے پاس تیری درگاہ کے علاوہ کوئی درگاہ ہی نہیں۔ لبیک۔ اللہم لبیک۔ اس پر اور غور فرمائیں جب حج کا اور عمرے کا احرام باندھیں۔ فوری طور پر لبیک پکارنا شروع کر دیں جس قدر آپ لبیک پکارنا شروع کر دیں گے۔اپ کے حج کے ثواب میں اسی قدر اضافہ ہوتا جائے گا۔ آج فتن کا دور ہے، جہاز پہ بیٹھتے ہی آپ کی سیٹ کے ساتھ ایک سکرین لگی ہوئی ہے۔آپ کے پاس ساری آپشنز موجود ہے آپ کیا سننا چاہتے ہیں؟کیا دیکھنے چاہتے ہیں؟ میں آپ کر ریکومنڈ کر رہا ہوں آپ ان ساری چیزوں سے بےنیاز ہو کر، اپنی نگاہوں کو جھکا کر، اللہ کی عدالت میں اپنے آپ کو حاضر کر کے اور یوں سمجھ کےکہ ایک عظیم ہستی نے بلایا ہے۔۔لوگوں کو اس پر مان ہوتا ہے کہ۔ایم پی اے۔۔ایم این اے پی۔ ایم۔۔ پریذیڈینٹ نے بلایا ہے لیکن آپ کو سب سے عظیم ہستی نے بلایا ہے۔ لبیک۔۔
پوچھا گیا سب سے افضل حج کونسا ہے تو فرمایا وہ حج جس میں کثرت سے تلبیہ پڑھا گیا ہو۔ اور جو اللہ کی راہ میں جانور ذ بح کر کے تقسیم کرتے ہوئے جتنا زیادہ تلبیہ پکاریں گے، قربانیاں پیش کریں گے حج کے ثواب میں اسی قدر اضافہ ہو گا۔
آپ لبیک پکارنا شروع کریں گے چند منٹ میں آپ کے دل کی دنیا بدلنا شروع ہو جائے گی۔گپ شپ، ادھر ادھر کے خیالات اور دھیان چھوڑ دیں اور تلبیہ/ لبیك اللهم لبيك پڑھیں۔ میقات سے پکارنا شروع کر دیں. جب بھی کوئی لبیک پکارنے والا لبیک پکار رہا ہوتا ہے، مشرق سے لے کر مغرب تک روئے زمین کے پختہ اور کچے مکان, کرہ ارضی کے سارے درخت ان عازمین حج کے ساتھ لبیک پکارتے ہیں۔
آپ تنہا نہیں ہوتے، آپ کے ساتھ پوری کائنات ہوتی ہے۔ پھر آپ نے اپنا لباس تبدیل کر لیا، اپنا مقامی کلچر ، ثقافت، قومی لباس اور شناخت سب کچھ ختم کر دیا۔ کفن کی طرح کی دو چادریں آپ نے پہن لیں۔ لباس اتارنا اور دو چادریں پہننا، اور سب انسانوں کا لباس ایک جیسا ہو نا بھی ایک معنی رکھتا ہے۔ ان سلے کپڑے پہننا بھی۔ یہ ایرانی ہے، یہ تورانی ہے، یہ افغانی ہے، یہ ترکستانی ہے،یہ امریکی اور یورپین ہے، یہ پاکستانی ہے۔ یہ عربی و ہاشمی ہے۔ اس کا رنگ کالا ہے اسکا رنگ گورا ہے، یہ فلاں نسل کا ہے، اس کی فلاں زباں ہے، اس کا لوکل کلچر یہ ہے۔ اس کی یہ ثقافت ہے ، اس کا فلاں تمدن ہے۔اس کا جغرافیہ فلاں ہے۔
اے اللہ میں حج جیسی عظیم عبادت پر قربان جاؤں، اپنی زبان، تہذیب، رسوم، رواج اور مادری زبان کو چھوڑ کر،اپنے لباس کو تج کر کے کہتے ہیں۔ اے اللہ ہماری کوئی شناخت نہیں ہے اس وقت ہم صرف تیرے بندے ہیں، صرف مسلم ہیں۔
فلسفہ حج پر بہترین مضمون الحمدللہ