ہر نئی طلوع ہونے والی صبح ایک نئے غم سے ہمکنار کر دیتی ہے کیونکہ ہم اس ریاست میں جی رہے ہیں جہاں اسلام پر طعن و تشنیع اور اہل علم اور اہل اسلام کا مذاق اڑانا، اسلامی شعائر کا ا ستھزا کرنا ، حدود اللہ پر آوازے کسنا، اسلام پر تخریب کاری کا لیبل لگانا اور احکام الٰہی کو اپنی من پسند ترقی اور مغربی افکار کے فروغ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے تضحیک کا نشانہ بنانا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے
حالانکہ اس ریاست کے قیام کی بنیادی وجہ اسلام اور اسلامی شعائر کا دفاع تھا۔ اس کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں۔اسلام کی توقیر پر گھر بار لٹے۔عزتیں قربان ہوئیں۔لیکن اس ریاست میں ایک طبقہ ہمیشہ یہاں اسلام کا مخالف رہا۔ سو یہاں لبرل ازم کے نعرے بلند ہوتے رہے اسلامی قوانین کی دھجیاں بکھرتی رہیں۔
ابھی لبرل مفکرین اور آنٹیوں کی خدمات کیا کم تھیں اسلام کو رسوا کرنے کے لیے جو اشتہاری مہم کے سہارے کی ضرورت پڑی۔دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ پہلے تو چیزیں بیچنے کے لئے عورت کو سر بازار لایا گیا، ہر پراڈکٹ کی فروخت کے لیے عورت کو رسوا کیا گیا۔کیا ہماری لبرل مافیا کے لیے اتنی خدمات کافی نہیں تھیں جو مزید آگے بڑھ کر اپنی رسوائیوں کے داغ کو دھونے کی بجائے احکام الٰہی کو داغ کہہ کر تضحیک کی گئی
تو سن لو آسماں کا رب اس سب کے ٹھیکیداروں کوجو بے پردگی کو فروغ دے کر مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں کیا وعید سنا رہا ہے۔ رب العزت کا فرمان ہے” إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ . جو اہل ایمان میں بے حیائی کو فروغ دینا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔
اس سارے کے پیچھے ایک ہی مہم ہے جس کا مقصد اسلام کے مقدس اور پاکیزہ معاشرے کو پامال کر کے مادر پدر آزاد معاشرہ قائم کرنا ہے۔ لیکن لبرل ازم کے خواب دیکھنے والے آگاہ رہیں کہ جب تک اس ملک میں محمد عربی کے غلام موجود ہیں ان کے ناپاک ارادوں کو یہاں پنپنے نہیں دیا جائے گا۔ان شاءاللہ
ایک مرتبہ ایک مسلمان ہونے والی ہندو صحافی عورت کا انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا جو کملا داس سے اب ثریا بن چکی ہے۔فرماتی ہیں” پردہ عورت کے لیے بلٹ پروف جیکٹ ہے” در حقیقت اس دفاعی جیکٹ سے خار ان لوگوں کو ہے جو اپنی معاشرتی محرومیوں کا بدلہ ہم سے لیناچاہتے ہیں اس مقصد کی تکمیل کے لیے ان کے زر خرید غلام دن رات کوشاں ہیں۔
در حقیقت تمام معاشرتی برائیوں کا آغاز بے پردگی سے ہوتا ہے۔ پردہ ہی وہ حفاظتی حصار ہے جس کی وجہ سے شرم و حیا کے سوتے پھوٹتے ہیں۔اور خوبصورت با حیا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اور یہی خوبصورت معاشرہ اہل مغرب کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ کیونکہ مغربی معاشرے کے خاندانی نظام کی تباہی کا بڑا سبب آزادی کے نام پر عورت کو چادر اور چار دیواری سے نکال کر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہے۔ اور اب اس ناسور نے ان کے خاندانی نظام کو مکمل تباہ کر دیا ہے۔ ہمارے لبرلز ان سے عبرت پکڑنے کی بجائے آئے روز اس کی حمایت میں احکامِ الٰہی کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔
لیکن میری درخواست اپنی قوم سے اور خصوصا خواتین سے ہے کہ آئیں جہاں ان کے اشتہار کام کر رہے ہیں۔ ہم خود اپنے عمل کے ذریعے اسلام کی تشہیر کا فریضہ سر انجام دیں ہم اس حکم ربی کو اپنے اوپر نافذ کر لیں تاکہ اس کو داغ کہنے والے دیکھیں کہ انھیں اپنی رسوائیوں کے داغ کو کیسے دھونا ہے؟؟
تو قارئین اس سلسلے میں ایریل تو ظاہر ی داغ صاف کرنے میں بھی ناکام ہے تو باطنی داغوں کو صاف کرنا کیسے ممکن ہو گا؟؟ اس کا فیصلہ یہ خود کریں گے یا پھر وہ ذات جو علی کل شی قدیر ہے اپنے حکم کو نافذ کر کے ان کا فیصلہ فرما دے گی۔ وما توفیقی الا باللہ۔