ماضی میں پیغمبرانِ کرام اور اسلام کے خلاف سرکشی اختیار کرنے پر گزشتہ اقوام عذابِ الہی سے نیست و نابود کر دی گئیں. مگر اللہ تعالی کے وہ عذاب مقامی طور پر اپنے اپنے علاقوں میں آتے رہے ہیں.
ہمارے پیارے پیغمبر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بین الاقوامی پیغمبر تھے. ساری دنیا کے لیے رہبر و رہنما تھے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے خصوصی دعا فرمائی تھی کہ یا اللہ! میری امت کو عمومی عذاب سے نیست و نابود نہ فرمانا اور اللہ رب العزت نے آپ کی دعا کو قبول و منظور فرمایا تھا.
گزشتہ ڈیڑھ ہزار ھجری سالوں کے درمیان امت میں سرکشی اور بے عملی کی بنا پر مقامی عذاب تو آتے رہے مگر الله تعالیٰ نے امت کو بڑی تباہی سے محفوظ و مامون رکھا.
جیسے عروس البلاد بغداد کی ہلاکو نے اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی تو دوسری طرف اس وقت اندلس میں اسلامی حکومت قائم ودائم تھی. یا جب اندلس میں مسلم حکومت تباہی سے دوچار ہوئی، دوسری طرف اس وقت سلطنت عثمانیہ کا ستارہ عروج پر تھا. جب ہندوستان میں سلطان ٹیپو کی حکومت نیست و نابود کی گئی تو اس وقت ترکی حکومت اپنے عروج پر تھی.
مگر یہ گزشتہ دور کی باتیں ہیں. اس وقت ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں، معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس وقت کی عالمی وباء کورونا الله تعالى کی شدید ناراضگی کا مظہر ہے. اس وباء کے بہت سارے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ دنیا میں اس وقت الحادی فکر عام ہو رہی ہے. سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ دنیا نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انہوں نے مظاہرِ فطرت پر قابو پا لیا ہے اور ہم ہی کارِ مختار ہیں. ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں. کوئی ہمارے احکام سے سرتابی کی تاب نہیں رکھ سکتا. ان کا خیال ہے کہ ہوا، بارش، موسم وغیرہ میں ہم اپنی مرضی سے تبدیلی کر سکتے ہیں. شائد انھوں نے اپنے آپ کو ہی (معاذ اللہ) خالق سمجھ لیا ہے.
چنانچہ اس زعم کا نتیجہ اسلاموفوبیا کی شکل میں ظاہر ہوا کہ دنیا بھر سے قرآن پاک کو اور مسلمانوں کو ختم کردو. جو ہماری خدائی کو مان لے وہ ہمارا، اور جو اس میں چون و چرا کرے اس کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں. جو مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہیں، باطل قوتوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں تو ان مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے حربے اختیار کیے گئے. 1991ء میں روس کے افغانستان سے ناکام ہو جانے کے بعد امریکہ نے “انا ربکم الاعلی” اور “انا ولا غیری” کا نعرہ بلند کر دیا. اس وقت سے لے کر آج تک مسلمانوں کا مختلف انداز میں قلع قمع کیا گیا. پہلے تو جہاد کو دہشت گردی کہا گیا، پھر خود اسلام کو ہی دہشت گردی کا نام دیا گیا.
تمام کافر قوموں نے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے گویا خاموش اتحاد کر لیا ہے. دنیا بھر میں جہاں مسلمانوں کو تباہ کیا جاتا ہے، اس پر یو-ان-او کوئی ایکشن نہیں لیتی. اس کے حق میں کوئی کلمہ خیر نہیں کہتی، انصاف دلانا تو دور کی بات ہے.
حالیہ ٹرمپ اور مودی کے اتحاد کے بعد کشمیر، فلسطین اور ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح کے اقدام کیے گئے ہیں اور کشمیریوں کو لاک ڈاؤن کر کے محصور کر دیا گیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے. 230 دن کے لاک ڈاؤن میں کشمیریوں کی کیا حالت ہوچکی ہوگی، اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں. کوئی ان کے حق میں بات نہیں کرتا. ہم کافر قوتوں سے کیا شکوہ کریں، خود مسلمان قوموں نے کشمیر کے لاک ڈاؤن پر کس طرح سکوت اختیار کیا؟؟ بلکہ خود آگے بڑھ کر انڈیا کو کئی طرح کے ایوارڈز سے نوازا، کہ ہم اتنی بڑی معاشی قوت کو کیوں نظر انداز کریں. 180 ممالک میں سے سے صرف ایران، چین، ملائیشیا اور ترکی نے مخالفت کی. باقی تمام عرب ممالک نے انڈیا کا ساتھ دیا.
امریکہ کی تہذیبی دہشتگردی کا یہ عالم ہے کہ ساری دنیا کے لیے وہ اپنے حلال و حرام کے مسائل اور ضابطے ان پر ٹھونستا ہے. مثلاً عورت کے حقوق کے نام پر عورت بگاڑ تحریک شروع کی. حتی کہ پاکستان جیسے مسلمان ملک میں یہ نعرے سرِعام لگوائے کہ “میرا جسم، میری مرضی.” شرم و حیا کے دین پر چلنے والے مسلمانوں میں اتنے بیہودہ نعرے ذہن میں ڈالنے کی کوشش کی گئی. فلسطینیوں پر، اہلِ کشمیر پر، اہلِ برما پر مظالم کی حد کی گئی. ان کی آہیں، سسکیاں جب دنیا میں پذیرائی حاصل نہ کر سکیں تو پھر ان کے نالے عرش بریں پر پہنچے تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ عرش سے فیصلہ صادر ہوا ہے اور پوری انسانیت کو کورونا کے عذاب میں مبتلا کر دیا گیا ہے.
علاج:
ایک مسلمان جیسے بھی مشکل حالات میں ہو، اس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اللہ پر کامل توکل کرے، بھروسہ کرے اور احتیاطی تدابير کو اختیار کرتے ہوئے علاج بھی کرے. یہ علاج جسمانی بھی ہونا چاہیے اور روحانی بھی.
روحانی علاج میں صبح و شام کے اذکار، توبہ و استغفار، تلاوتِ قرآن کی کثرت، شفاء کی دعائیں بہت اہم ہے. اور حرام و ناجائز امور و مشاغل کا ترک کرنا، جو درحقیقت اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں، بے انتہا اہمیت کا حامل ہے. ایسا کیے بغیر محض زبانی کلامی اذکار بہت زیادہ نفع نہیں دیں گے. زبان کے ساتھ اعمال کی اصلاح کے ذریعے بھی اللہ کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے.
جسمانی علاج میں سب سے بنیادی کردار انسان کی اپنی قوتِ مدافعت کا ہے. اس کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے. اس کے لیے بیکری کی تمام مصنوعات، کولڈ ڈرنکس اور جنک فوڈ سے مکمل پرہیز ضروری ہے. دیسی گھی، زیتون کا تیل، شہد اور قدرتی غذاؤں سے اپنی قوتِ مدافعت بحال کی جائے.
تاہم اگر خدانخواستہ کسی میں اس وباء کے اثرات پائے جائیں تو پہلے تو اس مریض کو کمرے میں الگ کر دیا جائے اور علاج کے ضمن میں:
وٹامن سی لینا،
گرم پانی پینا،
غرارے کرنا،
اور سٹیم یعنی بھاپ کا استعمال بہت مؤثر ہیں.
اگر مرض شدت اختیار کر جائے تو:
ادرک/ زنجبيل کا قہوہ شہد ملا کر دن میں دو تین مرتبہ پینا مفید ہے.
ہلدی شہد میں ملا کر صبح، دوپہر و شام لی جا سکتی ہے.
ایلو ویرا صبح و شام آدھا آدھا کپ کھانے سے پہلے لیا جائے.
اس کی ویکسین تو موجود نہیں ہے. ڈاکٹر اس وباء کے علاج سے عاجز ہیں تو احتیاط اور تدابیر کے ساتھ ذکرِ الہی، دعا و استغفار اور صدقہ و خیرات کے ساتھ ہر مسلمان کو اپنے آپ کو اللہ کی حفاظت میں دے دینا چاہیے. اور اپنے ساتھ پوری امت مسلمہ کو دعاؤں میں یاد رکھیں.
فَاللَّهُ خَیۡرٌ حَـٰفِظࣰاۖ وَهُوَ أَرۡحَمُ الرَّ ٰحِمِینَ.
تحریر: پروفیسر ثریا بتول علوی