معصوم بچوں کی شہادت یا مذہب انسانیت کا جنازہ؟

حقیقی بات تو یہ ہے کہ حال ہی میں جوسانحہ معصوم بچوں کے حوالے سے ہوا ہے اس پرکچھ لکھنےکی نہ قلم میں طاقت ہے اور نہ الفاظ ساتھ دے رہے ہیں.درحقیقت یہ سانحہ ان لوگوں کےکالے کرتوتوں میں سے ہےجنہوں نےانسانیت کانعرہ لگا کہ انسانیت کی توہین کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ سفاکیت بھی شرما جائے اور ان کے پیرو کاروں کی انسانیت بھی ہمیشہ داڑھی،قران اہل اسلام پرطعن وتشنیع اور اسلام کے مراکز پر بد زبانی تک محدود ہے.

مذہب انسانیت کے ان علم برداروں سے ایک سوال ہےکہ ان کی انسانیت کتنی مضبوط ہے جوکلیوں جیسے معصوم بچوں کو مارنے، نہتے شہریوں پر بم گرانے بے گناہ عوام کو بغیر کسی وجہ کے مارنے اور کمزور عورتوں پر تشدد کرنے کےباوجود بھی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رہتی ہے الغرض!! یہ سانحہ ان کے زرخرید غلاموں، موم بتی مافیااور لبرل ازم کے منہ پر بھی زوردارطمانچہ ہے.

افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ لوگ جو انسانیت کے نام پر بد نما دھبہ ہیں وہ انسانیت کا درس ان لوگوں کو دیتے ہیں جن کا مذہب حالت امن تو کیا حالت جنگ میں بھی بچوں خواتین، بوڑھوں اور علمائے دین پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا. تاریخ نے ابو بکر صدیق کی اس نصیحت کو بہت خوب صورتی سے اپنے اوراق میں مرتسم کر رکھا ہے جو انھوں نے لشکر کی روانگی کے وقت سالار لشکر کو کی تھی الکامل فی التاریخ جلد 2/صفحہ 200 میں لکھا ہے آپ نے فرمایا: لاشوں کا مثلی نہ کرنا، عورتوں، بچوں اورجنگ سے بری الذمہ لوگوں کو قتل مت کرنا.کچھ لوگ گرجوں میں عبادت کرتے ہوئے دکھائی دیں گے ان کو بھی قتل مت کرنا، کھجورکےدرختوں اور کسی بھی پھل دار درخت کو مت کاٹنااور فرمایا بھیڑ، بکری وغیرہ کو کھانے کے علاوہ ذبح مت کرنا، یہ ہے اسلام کا اصلی چہرہ جو آج تک نہ اہل مغرب کو نظر آیا اور نہ لبرل ازم کے دعوے داروں کو دیکھنے کی توفیق ہوئی.

دور حاضر کے فرعون نے جس طرح کمزور اور بے بس حفاظ کو شہید کیا ہے اس سے بڑھ کر بربریت کی اور کیا مثال ہو گی. امن عالم کے ٹھیکے داروں کا تاریک چہرہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں. خود کو امن کے سفیر کہلانے والو!! اور امن عالم کی تباہی کا سہرا سجانے والو یاد رکھو!!! وہ وقت دور نہیں جب تمہارا حال یہ ہوگا
فلک سے کنکر جو پھر گریں گے تو جی سکو گے نہ مر سکو گے
ایک ایک پل کا حساب لیں گے تو جی سکو گے نہ مر سکو گے
ہمارے بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے تو کر رہے ہو، ہاں یہ بھی سن لو
انھی سے خالد، عمر اٹھیں گے تو جی سکو گے نہ مر سکو گے
ہمیں فرامینِ عشق ازبر ہوئے ہیں بس دیر ہے عمل کی
خدا کی نصرت کے در کھلیں گے تو جی سکو گے نہ مر سکو گے.
ان شاء اللہ.. وما توفیقی الا باللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں