قوموں کی تاریخ میں عظیم شخصیات روز روز جنم نہیں لیتیں. صدیوں بعد کوئی شخصیت ابھرتی ھے اور بکھرے ہوئے ہجوم کو منظم شکل دے دیتی ہے. یہ عظیم لوگ دنیا میں اپنی قوم کی قسمت کا ستارہ بن کر آتے ہیں. ایسے ہی بلند مقاصد کے حامل لوگ اپنے آنیوالی نسلوں کیلیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔ایسی عظیم ہستیوں کے بارے میں شاعر نے خوب کہا ہے. “مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں، تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں”.
اگر ہم اسلام کی تاریخ اٹھائیں تو اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ اس میدان میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتوں کا بھی اس میں گراں قدر حصہ ہے بلکہ تاریخ ہمیں بہت سی ایسی خواتین سے متعارف کرواتی ہے جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف خدمات سر انجام دیں۔۔خصوصا علم کے میدان میں اس کی روشن مثالیں ہیں۔ تعلیم و تربیت کے حوالے سے معاشرے میں خواتین کا کردار بہت واضح ہے۔ آج میں نے خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی تربیت کا فریضہ سر انجام دینے والی ایک ایسی ہی عظیم ہستی پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا ہے۔ وہ ہیں عظیم معلمہ، مفسرہ، معروف مذہبی شخصیت ” استاذہ نگہت ہاشمی حفظھا اللہ”.
استاذہ نگہت ہاشمی علم اور علماء سے محبت کرنے والے مولانا عبد الرحمن ہاشمی رحمہ اللہ کی صاحبزادی اور انٹرنیشنل معلمة القرآن محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ حفظہا اللہ کی چھوٹی بہن ہیں۔آپ نے شہر سرگودھا میں آنکھ کھولی۔ اپنی رسمی تعلیم یہیں سے حاصل کی۔ان کے والد محترم انتہائی مہذب اور نفیس الطبع تھے۔ مولانا عبد الرحمن ہاشمی رحمہ اللہ اولاد کی تربیت کے معاملے بہت محتاط اور حساس آدمی تھے۔اس لیے استاذہ محترمہ کی تربیت میں ان کی خصوصی کاوش شامل حال رہی۔ اور تمام بہن بھائی خصوصا بہنیں دین سے شناسا اور مختلف جگہوں پر دین حق کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔استاذہ محترمہ کو بچپن سے ہی علم اور علمی سرگرمیوں سے بے حد دلچسپی تھی۔ منطقی استدلال میں ماہر تھیں۔یونیورسٹی دور میں ہی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔تقریر و تحریر کے میدان میں زمانہ طالب علمی میں ہی ماہر تھیں۔
دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ اپنی رسمی تعلیم بھی جاری رکھی۔آپ نےعربی ،اسلامیات، اور ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا اور ایم فل بھی کر رکھا ہے۔ایم۔فل کی ریسرچ کے دوران انھوں نے پاکستان کے مختلف مدارس اور دینی اداروں کا وزٹ کیا۔وہاں تربیت کے فقدان نے آپ کو قرآن سیکھنے اور سکھانے کے مشن پر گامزن کیا۔کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرر بھی خدمات انجام دیں۔انھوں نے طالبات کی علمی تشنگی دور کرنے کے لیےجس قرآن کلاس کا آغاز بہاول پور میں اپنے گھر کے ڈرائنگ روم سے1996 میں کیا۔وہ آج الحمدللہ دنیا میں النور انٹر نیشنل کے نام سے جانا جاتا ہےاور پاکستان کے پچیس شہروں میں النور کی برانچز قائم ہیں۔دوبئ میں بھی النور کی برانچ قائم ہو چکی ہے۔الحمد للہ۔استاذہ محترمہ نے قرآن حکیم کی تفسیر سوالاً جواباً لکھی۔آپ پہلی عورت ہیں جنہوں نے اسلامی تاریخ میں اس طرز کی تفسیر تحریر فرمائی۔ان کا یہ علمی کارنامہ جہاں تشنگان علم کے لیے ایک نعمت ہے وہاں پر استاذہ محترمہ کے لیے بھی ذخیرہ آخرت ہے۔ان شاءاللہ۔
قرآن حکیم کی تفسیر لکھنے اور پڑھانے کے ساتھ ساتھ استاذہ محترمہ نے نونہا لان اسلام کے لیے بھی ایک کورس چلڈرن آف ہیون کے نام سے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ کورس تعطیلات موسم گرما میں بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ان کی تربیت پر بھی ، زور دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کی تربیت کے حوالے سے استاذہ اپنے ادارے کے زیر اہتمام مختلف کورسز اور ورکشاپس کا اہتمام کرتی ہیں۔ اورنسل نو کو سیرت کی خوشبو سے معطر کرنے کے لیے سیرت کلاسز کا اہتمام بھی ان کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔۔
خواتین کی تربیت کے حوالے سے اور قرآن کے واقعات کے حوالے سے ان کے پروگرامز پیغام ٹی۔وی نے کاسٹ کیے ہیں۔ ان کے بہت سے اصلاحی کورسز کتابی شکل میں بھی پبلش ہو چکے ہیں۔ اس فتنوں کے دور میں فتنوں سے نسل نو کو محفوظ رکھنے کے لیے کورس “فتنوں کا دور” با قاعدہ پڑھایا جاتا ہے۔الغرض شب وروز خدمت دین میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کی کاوشوں کو شاعر کی زبان میں یوں لکھا جائے تو بے جا نہ ہوگا. “پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے کیا ہے تیرا مشغلہ، روشنی تقسیم کرنا ، جگنوؤں کو پالنا”۔
آپ کا اور بھی بہت سا علمی و تحریری کام ہے جو کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے اور شائقینِ علم کی پیاس بجھا رہا ہے۔ رب العزت ان کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے تاکہ ہم اس سر چشمہ علم سے فیض یاب ہوتے رہیں۔امین۔