میری بڑی بیٹی حافظہ عائشہ عبید آٹھویں کلاس کی طالبہ ہے اور الحمدللہ ذہین اور سمجھ دار ہے۔ کرونا وائرس کی بیماری کے تناظر میں جب 24 مارچ کو لاک ڈاؤن لگایا گیا تو میں نے اپنے بچوں کواس سے پہلے لاک ڈاؤن کا تصور بتایا اور سمجھایا تو عائشہ پریشان ہو گئی اور کہنے لگی کہ “اس کا مطلب ہے کہ کرفیو اور لاک ڈاؤن تقریبا ایک ہی چیز ہے۔” میں نے اثبات میں سر ہلایا تو مزید کہنے لگی کہ “انڈیا نے پورے کشمیر کو تقریباً آٹھ ماہ سے کرفیو لگا کر لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے۔ وہاں کے کشمیری مسلمانوں کی زندگیاں کس عذاب سے گزر رہی ہونگی! ان کے خوراک کے کیا صورتحال ہوگی؟ ان کے بیماروں کی زندگیاں کیسے بسر ہوتی ہونگی؟ ؟ ان کے بزرگ کیسے جیتے ہوں گے؟ ان کے بچے کیسے وقت سے پہلے بڑے اور سنجیدہ ہوں گے؟ان کی خواتین کی زندگیاں کیسے جہنم بنی ہونگیں؟ اب مسلمانوں کو بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو کشمیریوں کی بےبسی اور پریشانی کا معاملہ سمجھ آئے گا۔” مجھے خوشی ہوئی کہ اس نے ہمارے معاشرتی حالات کا موازنہ فوراً کشمیریوں کے حالات سے کیا ہے۔ مزید وہ کہنے لگی کہ”کشمیر میں تو کرونا وائرس کی بیماری کا مسئلہ بالکل نہیں ہوگا کیونکہ وہ تو پہلے ہی تقریباً آٹھ ماہ سے لاک ڈاؤن میں ہیں۔” میں نے اسے جواب دیا کہ “جی بیٹی! واقعتاً یہ بیماری مقبوضہ کشمیر میں نہیں پہنچی۔ بلکہ آزاد کشمیر میں بھی کرونا وائرس کے تاحال اکا دکا کیس سامنے آئے ہیں۔” پھر اس نے پاکستان میں کرونا بیماری کے پھیلاؤ کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔
پاکستان اور امریکہ کی کرونا بیماری کی حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ میں 26 فروری 2020ء کو ایک ہی دن کرونا وائرس کے مسئلے کا آغاز ہوا تھا جب دونوں ممالک میں پہلا پہلا کیس سامنے آیا۔ 27 مارچ کو پاکستان میں اس وقت تک یعنی ایک ماہ کے دوران (لاک ڈاؤن کے بغیر) تقریباً بارہ سو کیسز رجسٹر ہوئے ہیں جبکہ امریکہ میں لاک ڈاؤن کے باوجود لگ بھگ پچاسی ہزار کیسز ریکارڈ ہو چکے ہیں۔
28 مارچ کوصرف ایک دن میں مزید دس ہزار کیسز (10,000) ریکارڈ ہو چکے تھے۔
آج 2 اپریل کو تادم تحریر پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بائیس سو کے لگ بھگ ہے جبکہ امریکہ میں یہ تعداد 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ استغفر اللہ و اتوب الیہ۔
صحیح بخاری کی بہترین شرح “فتح الباری” کے مؤلف اور ہمارے عظیم امام علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ “عموماً متعدی اور وبائی بیماریوں کا آغاز موسم بہار میں ہوتا ہے اور موسم گرما کے آغاز میں اس کا اختتام ہو جاتا ہے۔”
اللہ تعالی کا ہم پر کتنا فضل و کرم اور احسان ہے! کتنا انعام ہے اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ہم پر کہ اس نے ہمیں اس موذی مرض سے سے بہت حد تک بچایا ہوا ہے! الحمدللہ!
اس میں اللہ کے فضل وکرم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے گرم ماحول کابھی کافی اثر ہے۔ اگرچہ اس سال مارچ میں بھی نسبتاً ٹھنڈ، سردی اور بارشیں رہی ہیں اور اپریل میں بھی بارشوں اور ٹھنڈ کے مزید امکانات ہیں۔ اور موسم بہار طویل ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اہل پاکستان کی محنت و مشقت اور جانفشانی کی عادت کو بھی اہمیت حاصل ہے جس نے “باذن اللہ” ان کے اندر یہ مہلک مرض اس لیول تک پیدا نہیں ہونے دیا جس حد تک یہ امریکیوں میں سامنے آچکا ہے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔
مجموعی طور پر پاکستانی قوم اپنے معاشرتی اور مذہبی رویوں کے ساتھ اس بیماری کے معاملے میں کافی حد تک جانفشانی اور مشقت برداشت کرنے والی ثابت ہوئی ہے۔ بلکہ ساری امت مسلمہ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے کرم سے بڑی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ جن اسلامی ممالک میں یہ موذی مرض پہنچا بھی، تو وہاں یہ اتنا نقصان دہ ثابت نہ ہوا جتنا مغربی ممالک میں نقصان دہ ثابت ہوا تھا۔ فلک الحمد۔
یا رب تری رحمت کا طلب گار ہے یہ بھی
تھوڑی سی مرے شہر کو بھی آب و ہوا دے
(وزیر آغا)
مغرب میں یہ وبائی مرض تو گویا موت کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ بظاہر لاک ڈاؤن کرونا مسئلہ کا حل دکھائی دیتا تھا۔ چنانچہ پوری دنیا میں جابجا لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ جو اسلام نے وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک اہم ترین ٹیکنیک متعارف کروائی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
جرمنی نے کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے اپنے ملک میں مختلف قدم اٹھایا تھا جو اس لیے کافی سود مند رہا ہے۔ جرمن حکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگانے کے بجائے ہر بندے کا کرونا ٹیسٹ کی تصدیق یا تردید کے لیے ٹیسٹ لیا۔ اور جن لوگوں کے کرونا رزلٹ مثبت آئے، تو ان کرونا وائرس کے مریضوں کو دوسروں سے علیحدہ کر دیا اور ان کو ہسپتالوں اور قرنطینہ سنٹروں میں منتقل کر دیا۔ اس طرح جرمنی نے نسبتاً کم وقت میں اور اچھے طریقے سے کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو بر وقت کنٹرول کر لیا۔
ویسے لگتا ہے کہ مرض کرونا وائرس کو اہل مغرب کے “خواص” سے بھی خصوصی شغف ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی بیوی صوفی گریگوائر ٹروڈو کو کرونا وائرس کا مرض لاحق ہوا تھا۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو بھی کورونا وائرس ہو گیاہے!
بادشاہت کے امیدوار اور ولی عہد 71 سالہ برطانوی شہزادہ چارلس کو بھی کرونا وائرس کا مسئلہ لاحق ہوگیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ بھی اس مرض میں مبتلا رہی ہے۔
آسٹریلوی وزیر پیٹر ڈوٹن میں بھی اس مرض کی تشخیص ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ جرمنی کا چانسلر میرکن، کینیڈا کا وزیراعظم جسٹن ٹروڈو، ناروے کا بادشاہ ہیرلڈ پنجم، ملایا کا بادشاہ اور دوسرے کثیر فرماں روایان و سربراہان مملکت قرنطینہ میں مقید و محدود ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ:
قل اللَّهُمَّ ملک الملک (آل عمران: 26)
ترجمہ: “(اے نبی!) کہہ دیجیے کہ اے اللہ! تو بادشاہی کا بادشاہ ہے۔”
اب ذہنوں میں سوال یہ ابھرتاہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو کب کرونا وائرس چمٹے گا؟
اسرائیلی وزیر بھی ابھی باقی ہے! لیکن ابھی اسرائیل میں اتنے کیس نہیں ہیں۔ لہٰذا ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ہو سکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے مسلمانوں کی یہ امیدیں پوری کر دیں۔ اور کفار کے اماموں، سرداروں اور وڈیروں کا خاتمہ کردیں۔ اور اسلام کا بول بالا کردیں۔
ویسے تو برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی برطانوی ٹرمپ ہی ہے۔
بہرحال امریکہ اس وقت کیسز کے لحاظ سے نمبر ون پر آ ہی چکا ہے۔ نیویارک کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس مریضوں کے علاج معالجہ کے لیے مکمل سہولیات (facilities) نہیں ہیں اور حکومت بھی پوری طرح سنجیدہ نہیں ہے۔ اور ہسپتالوں اور عوام کو مکمل سہولیات فراہم نہیں کر رہی۔
بلکہ ابھی تو امریکہ کی ریاستیں آپس میں بیماری کنٹرول کرنے کے لیے وسائل و ذرائع کے لیے جھگڑے کر رہی ہیں۔
ع ہےدل کےلیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اس وقت نیو یارک میں سب سے برا حال ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ “نیو یارک والے خواہ مخواہ تیس ہزار وینٹیلیٹر مانگ رہے ہیں۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ انھیں اس کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ بڑے بڑے ہسپتال دو وینٹیلیٹروں سے کام چلاتے ہیں اور یہ اچانک تیس ہزار مانگنے پر اتر آئے ہیں۔”
امریکہ کی باقی ریاستیں بھی اسی راستے پر گامزن ہیں۔ امید پیدا ہو رہی ہے کہ وہ مستقبل میں آپس میں لڑ لڑ کر ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کی باتیں شروع کر دیں گے۔ اور اللہ اہل کفر کو خود ان کے ہاتھوں کمزور کر دے گا۔
آپس کے اختلاف کی یہ صورتحال مسائل در مسائل پیدا کرتی ہے۔ وسائل وذرائع کی کمی اپنی جگہ لیکن قوموں کا باہمی اختلاف اور ایک دوسرے پر تنقید وغیرہ صورتحال کو بڑا سنگین، پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیتی ہے۔
اگر دنیا کے دیگر ممالک کی طرف دیکھیں تو ایک ہزار (1000) یا اس سے زائد مریضوں والے ممالک میں سے اس وقت تک پاکستان سب سے محفوظ ملک ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی بیماری کا آغاز ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے اور اتنے عرصے میں سب سے کم مریض پاکستان میں ہیں۔ یہاں دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم اموات ہوئی ہیں۔ سیریس حالت والے مریض سب سے کم ہیں۔ سب سے کم مقامی مریض ہیں۔ فی دن مریضوں کے بڑھنے کا تناسب یہاں کم ہے۔ اور صحت یاب ہونے والے لوگ کثیر تعداد میں ہیں۔ اگر اس کے تناسب کا اندازہ لگایا جائے تو یہ بات حیران کن ہے کہ 100 میں سے 98 یا 97 لوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں اور صرف دو یا تین لوگ موت کے منہ میں جاتے ہیں۔الحمد للہ۔ اور وہ بھی اس متعدی بیماری میں مبتلا ہونے کی بنا پر شہادت کی موت پاتے ہیں۔ پھر بھی اگر صرف مایوسی، ناامیدی اور پریشانی پھیلائی جائے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہے! ہم لوگوں کو مسلمان ہونے کے ناطے کی روشنی میں ہمیشہ امید کے مشعلیں روشن رکھنی چاہییں۔
دو خطرناک ہمسایہ ممالک ایران اور چین کا پڑوسی ہونے کے باوجود پاکستان سب سے کم متاثر ملک ہے۔ چند ممالک مثلاً پولینڈ، انڈیا، مصر، فلپائن، یونان وغیرہ میں مریض پاکستان سے کم ہیں مگر وہاں کرونا کے مریضوں کی اموات ہم سے بہت زیادہ ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہم گناہ گاروں پر محض مہربانیاں ہیں۔
فقط امید ہے بخشش کی تیری رحمت سے
وگرنہ عفو کے قابل مرے گناہ نہیں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان میں جلد صحیح طریقے سے موسم گرما کا آغاز ہو اور جلد اس موذی مرض کا خاتمہ ہو۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو ان حالات میں متفق و متحد ہوکر ایک زندہ اور مثالی ملک و ملت بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔