مولانا محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ اسلام کے نامور بزرگ گزرے ہیں جن کو شہید ملت علامہ ظہیر شہید رحمہ اللہ زندہ ولی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ جنہوں نے عمر بھر علم کی مشعل جلائے رکھی اور ان کا بہترین ادارہ دارالحدیث راجووال تشنگانِ علم کو سیراب کر رہا ہے۔ زہدو ورع کا مجسم پیکر اور تقوی کی دولت سے مالامال تھے۔
مولانا محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ کے حوالے سے میرے مطالعہ سے گزرا کہ جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تو بھی عظیم مثال قائم ہوئی۔ ان کی شادی ان کی سگی خالہ کی بیٹی سے ہوئی اور ان کا نکاح مولانا عبد الرحمن شاہ رحمہ اللہ نے پڑھایا جو ضلع امرتسر کے رہنے والے تھے، کتاب و سنت کے بہت بڑے عالم اور نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں احادیث کے حافظ تھے۔ مولانا محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ کے نکاح کے موقع پر مولانا عبد الرحمن نے جو حق مہر مقرر کیا۔ وہ ہمارے آج کے لوگوں کے لیے بہت بڑی مثال اور مشعلِ راہ ہے۔ قارئین بھی ملاحظہ فرمائیں۔ نکاح خواں نے حق مہر کے حوالے سے یہ طے کیا کہ یہ اپنی زوجہ محترمہ کو سورہ نور کی تعلیم یعنی ترجمہ و تفسیر پڑھائیں گے۔
اتنے عظیم حق مہر کے بدلے جو نکاح ہوا اس کے ثمرات بھی میں قارئین کے سامنے ضرور رکھوں گی۔ یہ نیک دل زوجہ محترمہ رحمھا اللہ مولانا کی تعلیمی، دعوتی اور مذہبی خدمات میں پیش پیش رہیں۔ اس عظیم کام میں مولانا رحمہ اللہ کو مصائب اور مشکلات پیش آئیں ان میں بھی یہ عزیمت کی مثال بنی رہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت اتنے اچھے انداز میں کی کہ ان کی پوری اولاد آج ملت اسلامیہ کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ الحمدللہ تمام بیٹیاں جس جگہ پہ بھی ہیں، قرآن و حدیث کی مسند اپنی استعداد کے مطابق سجائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بیٹے بھی دینی و دنیاوی تعلیم سے مالامال ہیں۔ ان کے دو صاحبزادے مولانا عبد الرحمن یوسف اور ڈاکٹر عبید الرحمن محسن حفظھما اللہ دونوں شیوخ وقت ہیں اور اور مولانا رحمہ اللہ کی علمی مسند کے امین اور وارث بن کر شمع علم کو فروزاں کیے ہوئے ہیں۔ اس نیک دل خاتون کی زندگی کی طرح موت بھی خواتین کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے گزشتہ سال جنوری 2019 میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر عبید الرحمن محسن صاحب حفظہ اللہ ان کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ وہ ہر وقت با وضو رہتیں۔ اور شب زندہ دار تھیں ۔ عمر بھر میں نے ان کو تہجد گزار پایا۔ اور وہ ہمیشہ وضو کے بعد دو نفل ادا فرماتی تھیں۔ان کو دل کی تکلیف ہوئی کم و بیش دودن تک پنجاب کارڈیالوجی لاہور میں زیر علاج رہیں۔ ہسپتال کے بستر پر تیمم کرکے نماز ادا فرماتی رہیں اور آخری دن وفات سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے بڑے اصرار سے کہنے لگیں کہ میں نے وضو کرنا ہے۔ مشکل کے باوجود ان کے اصرار پر میں نے ان کو ویل چئیر پر بٹھا کر خود اپنے ہاتھوں سے وضو کروایا۔ اور پھر بستر پر لٹایا، کچھ دیر تک زبان پر ذکر جاری رہا، لب حرکت میں رہے، کبھی کلمہ طیبہ، کبھی شدت تکلیف سے إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ،کبھی سورہ فاتحہ، اچانک ایک طمانیت، خاموشی سی اور وقار چھا گیا، لب کچھ کچھ حرکت میں رہے، ہاتھ متعدد بار اٹھے اور پھر نیچے ہوئے، بالخصوص دایاں ہاتھ، کبھی سینے پر رکھے ہوئے، رہا نہ گیا پوچھا، امی جی، ہاتھ کیوں اٹھا رہے تھے، فرمایا بیٹے دو رکعتیں ہو گئی ہیں، تب خیال آیا یہ یہ پر اسرار خامشی نماز کے لیے تھی اور ہاتھوں کا اٹھنا، نیچے گرنا در اصل رفع الیدین تھا،
اس کے بعد بس آواز زیادہ ہی بیٹھ گئ، لیکن ہونٹ کچھ کچھ حرکت میں رہے، اچانک امی جی قدرے صاف آواز میں یہ آیت مبارکہ تلاوت کی ثم استوی علی العرش مالکم…
کچھ سمجھ نہ آئی کہ ماں جی کون سی سورت تلاوت کر رہی ہیں، بعد میں ذہن نے ساتھ دیا کہ وہ تو عمر بھر کا معمول نبھا رہی تھیں، رات کو سونے سے پہلے سورہ سجدہ کی تلاوت،اس کے چند لمحوں بعد وہ ہم سے جدا ہو گئیں.
إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
قارئینِ کرام!!!یہ ہیں وہ عظیم المرتبت ہستی کہ جن کی روح ان کے پاکیزہ معمولات کی ادائیگی کے بعد قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
ایسی مائیں ہیں جو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ اور رول ماڈل ہیں۔ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔اور ہماری خواتین کو اورہم سب کو اخلاص اور للہیت والی زندگی عطا کرے اور ایمان والی موت۔۔
آمین یا رب العالمین