تعطیلات میں والدین کے لئے کچھ اہم ہدایات

حالیہ کورونا وائرس کی احتیاطی تدبیر کے طور پر سرکاری حکم نامہ آچکا ہے کہ تمام تعلیمی ادارے (اسکول، کالج، یونیورسٹیاں وغیرہ) 16مارچ 2020ء سے 5 اپریل 2020ء تک بند رہیں گے۔ (کیونکہ شدید گرمی کے آغاز میں تب تک کرونا وائرس کا زور ٹوٹ جائے گا۔ ان شاءاللہ) اب تین ہفتے کی چھٹیوں کا آغاز ہوچکا ہے جس میں ہر عمر کے طلباء و طالبات گھر میں رہیں گے۔ دینی مدارس بھی بند ہوں گے حتیٰ کہ تعلیمی اکیڈمیاں اور ٹیوشن سینٹر بھی بند رہیں گے۔ میری اب تک کی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے جب میرے کانوں اور آنکھوں نے دینی مدارس اور ٹیوشن سینٹرز کو بھی مکمل طور پر بند ہوتے سنا اور دیکھا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان رحمت کے دروازوں مساجد و مدارس کو بند ہوتے دیکھ کر دل کو بڑی پریشانی اور تکلیف لاحق ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر یہ احتیاط کے تقاضے ہیں جن پر عملدرآمد ضروری ہے۔

ماؤں کے لیے یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے جب بچے مستقل پورا ٹائم گھر میں گزارتے ہیں۔ بچے تعلیمی اداروں میں چلے جائیں تو ماؤں کو گھر کے کام کاج نمٹانے اور کچھ آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن گھر میں بچوں کی مستقل موجودگی اور ان کی آپس کی لڑائیاں بلکہ جنگیں ماؤں کے لئے درد سر بن جاتی ہیں۔
ان مسائل سے نمٹنے کے لیے اگر مائیں ابتدا سے وقت نکال کر احتیاط سے ذہنی اور تحریری منصوبہ بندی کرلیں تو اس کا انہیں اور بچوں دونوں کو بہت فائدہ رہے گا۔
اس وقت مائیں بڑی مشکل محسوس کر رہی ہیں جب انہیں گھر پر مستقل پورا وقت بچوں کو دیکھنا ہوگا اور ان کی دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ جب بچے گھروں میں فارغ ہوں تو وہ بڑی فراغت سے لمبی لمبی لڑائیاں لڑنے کے علاوہ موبائل اور ٹی وی کا بہت زیادہ استعمال کرکے وقت کا ضیاع بھی کرتے ہیں۔ ان کی مختلف طرح کی فرمائشیں بھی جاری رہتی ہیں اور وہ ماؤں کے لیے چھوٹے بڑے مسائل کھڑے کیے رکھتے ہیں۔

مائیں اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرلیں کہ یہ دن پریشانی اور جھنجلاہٹ کے نہیں بلکہ سنہرے دن ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں اولاد کی اصلاح کے لیے عطا کیے ہیں۔
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مائیں اس موقع کو مصیبت سمجھنے کے بجائے غنیمت سمجھیں اور اپنے بچوں کے ساتھ محنت کریں تو یہ ان کی تعلیم و تربیت کا سنہری موقع ہے۔ ماؤں کا اصل مسئلہ ذہن اور سوچ تبدیل کرنے کا ہے۔ ان کو اپنا دل اور حوصلہ بڑا کرنا چاہیے۔
عملی اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ دعا کرنا بھی اہم بلکہ اہم ترین ہے۔
نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا کہGive me good mothers, I will give you good Nation
“تم مجھے اچھی مائیں دو, میں تمہیں اچھی قوم دوں گا” تو مادر محترم! ! یاد رکھیے کہ قوموں کی تعمیر اور انسانوں کی کردار سازی میں ماؤں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ باپوں کو بھی ان تمام معاملات میں ماؤں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔
اگر والدین باہمی مشاورت سے ایک واضح عملی لائحہ عمل تیار کر لیں تو وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت، کردار سازی اور انفرادی و اجتماعی اصلاح کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔ جس سے گھر کا ماحول بھی خوشگوار ہوگا اور اہل خانہ دنیا و آخرت کی کامیابی کی راہوں پر بھی گامزن ہوسکیں گے۔ اس سلسلہ میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔

1۔ بچوں کی تعلیمی یا تربیت کی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت اور مزاج کے مطابق بھی ان سے ان کی علیحدہ علیحدہ منصوبہ بندی کروائیں اور ان کا نظام الاوقات (Time table) بنوائیں۔ اگر بچے زیادہ چھوٹے ہوں تو مائیں ان کی منصوبہ بندی (planning) خود بھی لکھ کر کرسکتی ہیں۔ علاوہ ازیں اگر مائیں خود پڑھی لکھی نہ ہوں تو وہ زبانی طور پر ان کی منصوبہ بندی کروا سکتی ہیں یا ان کا لکھا ہوا سن کر چیک کر سکتی ہیں۔
ماؤں کو منصوبہ بندی تحریری یا زبانی کروانا بڑا مشکل لگتا ہے لیکن اگر یہ کام ہو جائے تو ماؤں اور بچوں دونوں کو بہت آسانی ہوجاتی ہے۔ شب وروز کی منصوبہ بندی اور نظام الاوقات کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
علاوہ ازیں رات کو یا اگلے دن پڑھائی شروع کرنے سے پہلے پچھلے دن کی منصوبہ بندی اور نظام الاوقات دونوں کا جائزہ بھی ضرور لیا جائے۔ اور نظام الاوقات میں اس محاسبہ کے لیے بھی باقاعدہ طور پر وقت متعین کیا گیا ہو۔

2۔ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور بچوں کو بھی نماز پنجگانہ کا عادی بنائیں۔ اس کے لئے ان کی نگرانی کریں اور ان پر محنت کریں۔
باپ گھر میں موجود ہوں تو باقاعدگی سے بیٹوں کو اپنی نگرانی میں مسجد اپنے ہمراہ لے کر جائیں اور نماز باجماعت ادا کروائیں۔ انہیں وضو کا طریقہ، مسجد میں داخل و خارج ہونے، نماز پڑھنے اور امامت کے آداب وغیرہ بھی سکھائیں۔ گھروں میں مائیں بچیوں کو اپنی نگرانی میں اپنے ساتھ نماز ادا کروائیں۔

3۔ مساجد و مدارس میں ناظرہ قرآن کی کلاسز بھی بند ہیں۔ لہذا اپنے بچوں کو دینی تعلیم بھی دیں۔ ناظرہ پڑھنے والے بچے اور ناظرہ مکمل کیے ہوئے بچے دونوں کا سبق اور دہرائی الگ الگ کر دیں۔ روزانہ قرآن مجید ناظرہ پڑھتے ہوئے اس کی مقدار میں اضافہ کریں، خود بھی اور بچوں میں بھی کم از کم آدھا یا ایک پارہ پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ جمعہ کے دن خاص طور پر خود بھی سورة الکہف کی تلاوت ضرور کریں اور بچوں سے بھی کروائیں۔ اس کے علاوہ بچوں میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کی عادت بھی ڈالیں۔ خود عمل کریں اور بچوں سے بھی عمل کروائیں۔
4۔ اپنے بچوں کو مسنون اعمال سکھائیں۔ عملی رہنمائی کے لیے روز مرہ کی دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، صبح و شام کے اذکار، نماز کے بعد کے اذکار، نماز جنازہ، اور چھوٹی سورتیں تھوڑی تھوڑی کر کے یاد کروائی جائیں۔ ناظرہ قرآن مکمل کرنے والے بچوں کو تجوید کی طرف بھی متوجہ کریں۔ موبائل اور کمپیوٹر سے حسبِ ضرورت تجوید کی کلاسز آن لائن بھی لی جا سکتی ہیں۔

5۔ ان دنوں میں اگر ممکن ہو تو بچوں کو خود پڑھائیں، اور اگر وہ بڑی کلاسوں کے طلبہ وطالبات ہیں تو پڑھائی کے وقت ان کی نگرانی کریں۔
بچوں کے چھٹیوں کے کام کی نگرانی کریں۔ بچوں کے چھٹیوں کے کام کی نگرانی کریں۔ سمجھ دار بچے چند ایام میں شب وروز جان مار کر سارا ہوم ورک کرکے فارغ ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کا دل ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی مرضی کریں، کھیلیں، کودیں، موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی دیکھیں، گھر سے باہر جائیں، دوستوں کے ساتھ کھیل کود اور گپ شپ میں وقت لگائیں (لیکن درحقیقت وقت کا ضیاع کریں) ۔بڑے بچے موٹر سائیکل چلانا یا اس طرح کےدیگر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ذہنی معیار اور ان کی عمر کے مطابق اس چیز کا بھی خیال کریں۔ اگر اس طرح کے چست اور ہوشیار بچے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیں تو بھی ان کا رشتہ کتاب سے ٹوٹنے نہ دیں۔ ان کو نظام الاوقات کے مطابق پڑھائی کی طرف متوجہ رکھیں۔ پڑھائی کے بعد خود زبانی یا تحریری ٹیسٹ لے لیا کریں۔ تاہم اگر بچے پڑھائی میں تنگ کرتے ہوں یا نالائق ہوں تو ان کو پڑھائی کی طرف زبردستی متوجہ کرنا اور ان کا ہوم ورک مکمل کروانا پڑتا ہے۔ اگر گھر میں ٹیوشن پڑھانے کے لیے ٹیچر آتے ہوں یا بچے خود ٹیچر کے گھر ٹیوشن پڑھنے جاتے ہوں تو ان سے بھی رہنمائی لے جا سکتی ہے۔ اور ان کو بھی باقاعدگی سے زبانی یا تحریری ٹیسٹ لینے کا کہا جاسکتا ہے۔

6۔ کتاب سے ان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ان کو مختلف کہانیوں اور اہم کتابوں کے مطالعہ کی طرف راغب کریں۔ حسب عمر بچوں کو میگزین اور رسائل و جرائد وغیرہ کے مطالعے کا عادی بنائیں۔ یہ بہت اہم ضرورت ہے کیونکہ عصر حاضر میں سکرین نے بچوں کو کتاب کے مطالعے سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کر لیا ہوا ہے۔

7۔ بچوں کی تربیت پر زیادہ وقت صرف کریں، اخلاق و کردار پر بھرپور توجہ دیں, گفتگو اور زبان بھی توجہ کے حامل ہیں۔ انہیں بہتر بنانے پر محنت کریں۔ ہر روز بچوں کو کوئی ٹاسک دیں کہ آج اس اچھی بات پر عمل کرنا ہے اور اس بری عادت کو چھوڑنا ہے۔

8۔ بچوں کے لئے مختلف غیر نصابی سرگرمیاں رکھیں۔
بچوں کے ساتھ باتیں کرنے اور مثبت گپ شپ کرنے کے لیے وقت نکالیں۔ ان کے ساتھ بیٹھیں، انکی گفتگو، لطیفے، اور پہیلیاں وغیرہ سنیں۔ ان کے ساتھ مختلف ڈسکشنز کریں۔ ماں باپ اپنے تجربات اور مشاہدات کو آپس میں زیرِ بحث لاتے ہوئے بچوں سے حسب عمر چھوٹے بڑے گھریلو مسائل ڈسکس کریں۔ اس پر ان سے مشورہ لیں۔ قابل اصلاح مشورہ اور رائے کی صورت میں ان کو صحیح بات دلیل کے ساتھ بھی بتائیں۔

9۔ ان کو مثبت سوچنا اور اچھا بولنا سکھائیں۔ خود بھی خاندانی سیاست، چغلی و غیبت، دوسروں کا مذاق اڑانا وغیرہ جیسے رذیل اور گناہ کے کاموں سے اجتناب کریں اور بچوں میں بھی یہ چیزیں پروان چڑھائیں۔ یرہاپنے بچوں میں اچھا لکھنے کی سوچ بھی پیدا کریں۔ ان کو تحریر لکھنے پر آمادہ کریں۔ اپنے دلی خیالات، اپنے ذہن کی باتیں، اپنے ساتھ پیش آمدہ چھوٹے بڑے واقعات قلم کے ذریعے قرطاس (کاغذ) پر منتقل کرنے کی تحریک پیدا کریں۔ مضمون نویسی، کہانی، افسانہ، آپ بیتی، رپورٹ وغیرہ لکھنا سکھائیں۔ یہ کام مشکل نہیں لیکن اس کے لیے محنت چاہیے اور نگرانی بھی۔ کیونکہ بچے سکول کالج میں لکھنے کا کام تو کرتے ہی ہیں۔ اگرمائیں خود نہیں کرسکتیں تو باپ یا ٹیویشن ٹیچر یہ کام ضرور کروائیں۔

11۔ گھروں میں بروقت کام کاج مکمل کرکے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں۔ بلکہ بچے بچیوں کو بھی حسب ضرورت اور حسب عمر کام میں لگائیں۔ اس سے ان کی گھریلو امور کی تربیت ہوتی ہے، کام کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے اور قوت مدافعت بھی مضبوط ہوتی ہے۔

12۔ اگر ممکن ہو تو ماں یا باپ یا دونوں بچوں کو اپنے ساتھ صبح سویرے یا شام کو قریبی پارک یا نہر کے کنارے واک، ورزش یا کھیل کے لیے لے کر جائیں۔ خود بھی واک اور ورزش کریں اور بچوں کو بھی بھاگنے دوڑنے والے کھیلوں کی طرف راغب کریں جس سے ان کی قوت مدافعت مضبوط ہو۔ یاد رہے کہ مضبوط قوت مدافعت بیماریوں کے خلاف بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔

13۔ تاریخی اور تفریحی مقامات کی سیروسیاحت سے بچوں کی قوت مشاہدہ اور نئی باتیں سیکھنے کے عمل کو فروغ ملتاہے۔ تاہم حالات حاضرہ کے تناظر میں یہ فی الحال مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو بچوں کو کسی قریبی باغ یا فارم یا کھیتوں وغیرہ میں لےجائیں اور وہاں ان کو فطری ماحول میں انجوائے کروائیں۔

14۔ نسبتاً بڑے بچوں کے لیےکمپیوٹر اور دیگر جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے آن لائن کورسز کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ یا کسی کمپوزر اور ڈیزائنر سے بچے کو کمپیوٹر کی بنیادی مہارتیں (گیمز کے علاوہ) سکھائی جاسکتی ہیں مثلاً کمپوزنگ، ڈیزائننگ، پرنٹنگ وغیرہ۔
اگر کوئی ڈاکٹر قریبی رشتہ دار ہوں یا اچھی جان پہچان والے ہوں تو ان کے کلینک پر بچوں کو فرسٹ ایڈ کی تربیت بھی دی جاسکتی ہے۔

15۔ والدین بچوں کو مختلف قسم کے ہنر سکھانے کا بندوبست کر سکتے ہیں مثلاً خوش خطی کے لیے اور املا کی غلطیاں دور کرنے کے لیے بھی خطاطی کے استاد (خطاط) سے انفرادی وقت لےکر بچوں کی لکھائی خوبصورت اور معیاری بنائی جا سکتی ہے۔ اور املا کی غلطیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔

16۔ گھر میں مائیں بچیوں کو مختصر وقت کے لئے کچھ گھریلو امور اور فنون کی تربیت دے سکتی ہیں مثلاً سلائی کڑھائی کی ابتدائی عملی تربیت اور کپڑوں کی مرمت یعنی ٹانکے لگانا اور بٹن ٹانکنا وغیرہ۔
17 گھر میں اگر لان یا کیاری بنی ہوئی ہو یا بڑے سائز کے گملے رکھے ہوں تو والدین بچوں کو بیج بونے، پودے اُگانے، ان کو پانی دینے اور ان کی دیکھ بھال کرنا بھی سکھا سکتے ہیں۔

18۔ بچوں کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں کراٹے یا جم کی ورزش کی پریکٹس وغیرہ کروائی جا سکتی ہے۔

19۔ موقع محل کی مناسبت سے کبھی بچوں کو رشتہ داروں سے ملاقات کروانے کے لئے لے جائیں۔ کیونکہ پارکس میں جانے پر تو پابندی ہے لیکن رشتہ داروں کے گھر جانے پر تو پابندی نہیں۔ بچے اپنے ہم عمر کزنوں اور رشتہ داروں سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور صلح رحمی، اور ملاقات کے آداب وغیرہ بھی سیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ رشتہ داروں کے گھروں سے بھی بچے نئی باتیں اور نت نئی چیزیں سیکھتے ہیں۔

20۔ سردیوں کے کپڑے اور بستر سنبھالیں اور گرمیوں کی چیزیں نکالیں اور ان کی سلائی، دھلائی کریں۔

21۔ اس کے علاوہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ رمضان کی تیاری کے لیے بھی منصوبہ بندی کریں۔ گھر کی صفائی ستھرائی اور دھلائی کے کاموں کی ابتدا کردیں۔ گھر سے فالتو سامان اور فالتو کپڑے، جوتے وغیرہ نکال دیں۔ اس کے علاوہ دل ودماغ سے بھی بیکار سوچیں اور منفی خیالات نکال دیں۔ اور انہیں اس وقت ان ضروری امور کی طرف متوجہ کریں۔
بچے بچیوں کو حسب عمر ان سب کاموں میں اپنے ہمراہ رکھیں۔ یہ بڑی اہم حقیقت ہے کہ بچوں کو تعمیری سرگرمیوں میں مصروف عمل رکھنا والدین کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ ان سب کاموں کے لیے آپ کو بھرپور ذہنی وجسمانی محنت و مشقت کرنی پڑے گی۔

22۔ رمضان المبارک کو خوش دلی سے مرحبا کہنے کے لیے گھریلو تیاری کے ساتھ ساتھ ذہنی، جسمانی اور روحانی تیاری بھی کریں۔ گزشتہ چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دیں۔ پیر اور جمعرات کا مسنون روزہ رکھنے کی عادت ڈالیں اور بچوں سے بھی یہ روزے رکھوائیں۔ تاکہ انہیں رمضان میں گرمیوں کے روزے رکھنے کی کوئی مشکل نہ ہو بلکہ ان کی بھی عادت بن گئی ہو۔ قرآن مجید ناظرہ اور ترجمہ زیادہ پڑھنے سے بچوں کو رمضان میں قرآن مجید کی طرف زیادہ توجہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔

23۔ گرمیوں اور عید الفطر کے کپڑوں، جوتوں اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے بھی دھیان سے مناسب وقت پر خریداری کی منصوبہ بندی کرلیں تاکہ یہ اہم کام بھی بروقت سر انجام دیے جا سکیں۔

ان تعطیلات کو رمضان المبارک کا پیش خیمہ سمجھ کر رمضان کی تیاری خود بھی شروع کریں اور بچوں سے بھی کروائیں۔

واللہ المستعان

اپنا تبصرہ بھیجیں