آگہی

صفیہ اور احسان کی پسند کی شادی تھی، جو دونوں کے گھر والوں کی رضامندی سے طے پائی تھی۔ خوشیوں کے ہنڈولوں میں جھولا جھولتے پتا ہی نہیں چلا کہ کب سات سال گزر گئے۔ اور وہ تین پیارے پیارے بچوں کے والدین کے رتبے پر فائز ہوگئے۔

احسان کے مالی حالات بہترین تھے۔ پھر بھی صفیہ نے ضد پکڑی تھی کہ وہ جاب کرنا چاہتی ہے۔ احسان اسے زمانے کی اونچ نیچ بتا بتا کر تھک چکا تھا مگر وہ مان ہی نہیں رہی تھی۔ صفیہ کی طبیعت تھوڑی چڑچڑے مزاج کی تھی، وہ نفاست پسند اور باذوق عورت تھی۔ اور اتنے سالوں میں اس نے بگڑے ہوئے احسان کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا۔ مگر اس پرسکون زندگی میں ہلچل مچانے انکے بچے آگئے۔ تینوں بےحد شرارتی تھے۔ صفیہ پھیلاوے سمیٹ سمیٹ کر ہلکان ہوجاتی تھی، مگر انکے کام تھے کہ ختم ہی نا ہوتے تھے کبھی کسی کو کھلونے چاہیئیں۔ تو کسی کو کھانا تو کوئی ڈائپر گندا کرلیتا۔ یہ سب نہ ہوتا تو جہاں بیٹھتے وہاں کی چیزیں توڑ ڈالتے۔ یا بکھیر کر رکھ دیتے۔ جب وہ دیکھتی تو غصے سے پارہ ہائی ہوجاتا۔ اور وہ ان معصوم سے بچوں کو پیٹ کر رکھ دیتی۔

اس دن بھی ایسا ہی ہوا وہ صفائی کر کے کھانا پکا کر ٹیبل پر لگا کر کمر سیدھی کرنے لیٹی تو پانچ سال والے زایان نے کرسی پر چڑھ کر ٹیبل پر چڑھی میز پوش کھینچ لی۔ نتیجتا سارا کھانا زمین بوس ہوگیا اور کانچ کے گلاس برتن سب ٹوٹ گئے۔ وہ شور سن کر باہر آئی تو ڈائننگ ٹیبل کا یہ حال دیکھ کو غصے سے بے قابو ہوگئی اور زایان کو دھنک کر رکھ دیا۔ پھر کمرہ بند کر کے رونے لگی۔ اسکے اعصاب جواب دے گئے تھے۔ احسان گھر آیا تو ہمیشہ کہ طرح اسے بچے لاؤنج میں کھیلتے کودتے نظر نہیں آئے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں آیا تو صفیہ گھٹنوں میں منہ دیئے رو رہی تھی۔ “کیا ہوا ہے بچے کہاں ہیں تم رو کیوں رہی ہو؟” وہ پریشان ہوگیا۔

“مجھ سے نہیں سنبھلتی آپکی اولاد، زندگی برباد کردی ہے میری انہوں نے۔ ایک منٹ چین سے نہیں بیٹھتے، اور زایان نے آج…” وہ ساری بات بتاتی گئی۔

احسان نے ٹھنڈی سانس لی اور اسے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا۔ اور خود زایان کے پاس گیا جو سہما بیٹھا تھا۔ وہ سب کو بہلا پھسلا کر باہر لایا اور اکھٹے کھانا کھانے لگے۔ وہ صفیہ کو کہہ نہیں سکا کہ یہ جو آنسو تھے یہ زایان کو پیٹنے کی وجہ سے نکلے تھے۔ احسان نے کام کی زیادتی کی وجہ سے صفیہ کیلئے میڈ رکھ دی۔ جو دوپہر کے ٹائم آتی تھی۔ یوں گھر کا ماحول تناؤ کا شکار ہونے سے پہلے ہی ٹھیک ہوگیا۔ صفیہ مطمئن ہوگئی۔

اسکے بعد صبح کے وقت صفیہ کو ایک اور مسئلہ تنگ کرنے لگا وہ یہ تھا کہ زایان شایان اور حرمین، اور خود احسان سب الگ الگ قسم کا ناشتہ کرتے تھے۔ زایان شایان کو بریڈ جیم، جبکہ حرمین کو بٹر پراٹھا یا بسکٹ کھانے کی عادت تھی۔ اور احسان کے گلے سے پراٹھے اور انڈوں کے سوا کچھ اترتا ہی نہیں تھا۔ مسئلہ یہ سب بنانا نہیں تھا۔ مسئلہ اس سب کو مینج کرنے کا تھا۔
صبح کے وقت کچن کا فرش کچرا کنڈی کا منظر پیش کرنے لگتا تھا انڈوں کے چھلکے، بریڈ کے ٹوٹے کنارے شاپرز، اور الابلا چیزوں کا ڈھیر لگ جاتا تھا اور صفیہ کہ نفاست پسند طبیعت کو یہ سب گراں گزرنے لگا تھا۔ وہ خاموشی سے بغیر کسی کے علم میں آئے سب کچھ صاف کردیتی۔
اور پھر اس نے میڈ سے بات کرلی کہ وہ صبح کے وقت بھی آیا کرے وہ اسکی تنخواہ میں اضافہ کردے گی۔ میڈ نے نئے مہینے سے آنے کی حامی بھر لی۔ “باجی کچھ دن آپ جیسے تیسے کر کے گزارہ کرلو، مجھے گھر میں بھی سب کو “منانا”پڑے گا اور روٹین بنانی پڑے گی” میڈ نے اسے کہا۔۔ “ٹھیک ہے میں مینج کرلوں گی” صفیہ نے گہری سانس لی۔

بچوں کے شور و غل سے تنگ آکر وہ اکثر گیلری میں آکر بیٹھ جاتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے اپنے بچوں سے محبت نہیں تھی، وہ ماں تھی فطری طور پر محبت کرنے والی۔ بس وہ اس سب سے تنگ آگئی تھی۔ جیسے کوئی ماں عاجز آجایا کرتی ہے۔ وہ اس دن بھی گیلری میں چائے کا مگ پکڑے بیٹھی تھی سامنے والے مکان کی گیلری میں عورت نے اسکی طرف ہاتھ ہلایا وہ دوستانہ انداز میں ہاتھ ملا کر نیچے آگئی۔
پھر اکثر ایسا ہی ہونے لگا وہ کبھی گلی میں ٹکرا جاتیں تو کبھی سبزی والے کے پاس۔
“آپ میرے گھر آئیں ہم شام کی چائے اکھٹے پیئیں گے” سامنے والی خاتون نے خوش دلی سے صفیہ کو دعوت دی۔ کچھ دن گزرے تو وہ بچوں کے ٹیوشن جانے کے بعد اسکے گھر کی طرف آگئی۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد صفیہ گھر کا جائزہ لینے لگی اسے وہ صاف ستھرا گھر اور پرسکون خاموشی بہت پسند آئی ابھی وہ اپنے دکھی دل کے پھپھولے پھوڑنے ہی لگی تھی کہ پڑوسن بول اٹھی۔
“آپ کتنی خوش نصیب ہیں، اچھا شوہر، بچے، ملازمہ، میں ر شک کرتی ہوں آپ پر، آپکے گھر کی رونق پر، اور جب اسکے مقابلے میں اپنا گھر اور اپنی زندگی دیکھتی ہوں تو زندگی کا خالی پن زیادہ محسوس ہوتا ہے، خدا آپکو ایسے ہی آباد رکھے” وہ بانجھ تھی۔ یہ صفیہ کو اب پتا چلا تھا۔ “آمین شکریہ،” صفیہ بدقت مسکرائی۔
“مجھے بھی یہ خاموشی یہ آپکا پرسکون گھر بہت پسند آیا ہے مسز تاج، میں ترس گئی ہوں ایسے سکون کیلئے” وہ نہ نہ کرتے بھی شکوہ کرگئی۔ “خدا نہ کرے ایسا “منحوس سکون” آپکی زندگی میں کبھی آئے” وہ دہل گئی تھی۔

“آپکا شوہر آپ سے خوش ہے، زندگی میں کوئی کمی نہیں ہے، شوہر برا بھی ہوجائے تو اولاد دل بہلانے کیلئے موجود ہے، پاؤں تلے جنت لےکر پھرنے کا غرور دیا ہے اللہ نے آپکو، ذرا دیر کو سوچیں کہ آپکو یہ گھر یہ پرسکون ماحول دے دیا جائے بدلے میں آپکو بانجھ کردیا جائے۔ آپکے شوہر کی نگاہ الفت آپکی جانب اٹھنا بند ہوجائے۔ ہر پل اولاد کی خواہش کیلئے ہمکتا دل بےچین ہو، کیا آپ زندگی کے پہاڑ جیسے دس بارہ قیمتی سال اس “سکون” میں گزار لیں گی؟”۔ “اللہ نا کرے ” صفیہ سر تا پا لرز گئی۔

وہ چند لمحوں میں موضوع بدلنے لگی اور کچھ دیر میں ہی یہ سناٹا روح کو گھائل کرنے لگا تھا اسے اپنے گھر کی یاد ستائی۔ جسے وہ بوجھ سمجھ کر سناٹا چاہتی تھی۔ وہ اس سے اجازت لےکر اپنے گھر آگئی۔

پہلی بار اس نے بچوں کو لاؤنج میں پھیلاوا کرنے پر ڈانٹا نہیں۔ نا ہی وہ ہر چیز اٹھا اٹھا کر رکھتی رہی، وہ صوفے پر بیٹھ کر انہیں کھیلنے میں مدد دے رہی تھی۔ بغیر پیشانی پر بل لائے۔ دل تھا کہ ندامت کی گہرائیوں میں ڈوب ابھر رہا تھا۔ آج پہلی بار احسان گھر آیا تو اسے خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ وہ بچوں کے درمیان مطمئن بیٹھی تھی۔ جبکہ انہوں نے سارا لاؤنج بکھیر دیا تھا۔
“خیر ہے؟ آج موسم اتنا خوشگوار؟” وہ اسے چھیڑتا گیا۔ وہ احسان کے چہرے پر بکھرتے خوشی کے رنگ دیکھ کر نہال ہوگئی۔ “بس عقل آگئی” وہ ہنس پڑی۔

صبح ناشتہ وہ دلجمعی سے بنا رہی تھی کیونکہ آج سے میڈ نے صبح بھی آنا تھا۔ وہ بےفکری سے سب بنا بنا کر دے رہی تھی کچرے کا ڈھیر لگ رہا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھا بچوں کو اسکول روانہ کر کے وہ ٹی وہ لگا کر خود کچن میں آگئی میڈ آگئی تھی۔ وہ اسکی مدد کروانے لگی۔ “زرینہ، تمہارے بھی تو پانچ بچے ہیں نا؟ تم بھی ایسے ہی کچرے اور پھیلاوے سمیٹ سمیٹ کر تھک جاتی ہوگی؟” سلیب صاف کرتے ہوئے صفیہ نے سوال کیا۔
“ارے باجی” ملازمہ ہنس پڑی۔ “ہمارے ایسے “نصیب” کہاں؟ جو یوں بھر بھر کے تین ٹائم کچرے نکلیں، بچے تو صبح روٹی سالن کھا کر اللہ کا شکر ادا کرلیتے کے اس نے خالی پیٹ نہیں رکھا۔ پھر جب کھانا ہی روٹی سالن ہے تو کیسا پھیلاوہ اور نخرے؟ اور یہ انڈوں بریڈ، پنیر، مکھن کے ڈبے کہاں” وہ ہنس رہی تھی پتا نہیں خود پر یا قسمت پر۔ صفیہ جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی۔

یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ اللہ کی دین تھی عطا تھی کہ رزق کی وافر مقدار موجود تھی۔ اگر وہ بھی زرینہ کی طرح کرائے کے مکان میں رہ رہی ہوتی اور بچے سوکھی روٹی سالن کھا کر اسکول جاتے تو وہ بھی ایسے ہی کسی کے گھر کام پر نکل جاتی۔ یہ کچرا نہیں رزق کا ثبوت تھا۔ وہ صفائی کرتی زرینہ کی پشت کو دیکھ رہی تھی۔
“تم کل سے مت آنا، میں تمہیں سیلری پوری کی پوری دے دیا کروں گی، تم پلیز اپنے گھر میں اپنے بچوں کے پاس رہنا اور انہیں ہر نعمت کھلایا کرنا، خدا کرے تمہارا کچن بھی اتنا ہی بھر جائے” وہ آنسو ہتھیلی کی پشت سے پونچھ رہی تھی اور پانچ پانچ ہزار والے نوٹ زرینہ کے ہاتھ پر رکھے۔ وہ شش و پنج میں کھڑی تھی کہ باجی کو ہوا کیا ہے؟

وہ کیا جانتی کہ آگہی کا در کھلا تھا اللہ نے تیسری آنکھ کھولی تھی جو شکر ادا کرنے والی چیزیں دیکھتی تھی اگر اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں ہوتا تو ان چیزوں کو دیکھیں جن کو دیکھ کفران نعمت کرتے ہیں پھر سوچیں کہ کتنے لوگ ایسے بھی ہونگے جو اس سے بھی محروم ہونگے۔ اپنے کمرے میں ہتھیلیوں میں منہ چھپا کر اللہ سے اپنے کفران نعمت کی معافی مانگتی صفیہ جانتی تھی کہ وہ اب کبھی اللہ کی نعمتوں کو جھٹلا نہیں سکی تھی۔

آگہی” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں